Sunday, January 25, 2015

وہ نہ ہو تو بُرا سا لگتا ہے

وہ نہ ہو تو بُرا سا لگتا ہے
وقت بھی کچھ خفا سا لگتا ہے
میں بھی بِکھرا ہُوا سا رہتا ہوں
وہ بھی کھویا ہوا سا لگتا ہے
آ گئے ہیں وہ میرے اتنے قریب
قُرب بھی فاصلہ سا لگتا ہے
اپنے بیٹے کو جب بھی دیکھتا ہوں
اپنا چہرہ نیا سا لگتا ہے
جو بھی کہتی ہے میری ماں مجھ سے
حرف حرف اک دُعا سا لگتا ہے
ماند پڑنے لگے ہیں تارے بھی
آسماں بھی تھکا سا لگتا ہے
ساتھ ثاقبؔ جو ظلمتوں میں تھا
وہ دیا اب بجھا سا لگتا ہے

No comments:

Post a Comment