میں اس کے واسطے کیا ہوں
جو میری زندگی ہے
زندگی کی آخری حد ہے
میں اس کے واسطے کیا ہوں
میں شاید اس کے کمرے میں پڑا
گزرے ہوئے دن کا کوئی اخبار
جس کو سرسری نظروں سے بھی
دیکھا نہیں اس نے
اک ایسا لفظ
جو اس نے لغت سے کاٹ پھینکا ہے
یا اس کی رائٹنگ ٹیبل پہ رکھے
چند ورقوں کے دباؤ میں پڑا
بے کار سا صفحہ
جسے پڑھنے کی زحمت کی نہیں اس نے
یا وہ کنگھا
کہ جو متروک ہونے کا لقب پا کر
طلسمِ زلفِ تیرہ کی بلندی سے
بہت نیچے
اب اس کی ڈسٹ بن کی تہہ میں
محوِ استراحت ہے
میں وہ کل ہوں
میں وہ گزرا ہوا کل ہوں
جسے وہ سوچنے سے بھی گریزاں ہے
میں ہوں شاید وہ اک نغمہ
کہ جو لب تک رسائی سے
بہت پہلے کہیں دم توڑ دیتا ہے
میں وہ لمحہ ہوں
جو اب تک
اسی کے ہجر کی سولی پہ لٹکا ہے
میں اس کی آنکھ سے
چھلکا ہوا آنسو
جو خاک آلود چہرے پر
تمناؤں کا خوں مَل کر
زمیں پر رقص کرتا ہے
میں اک برگِ خزاں ہوں
اس کے قدموں کے تلے جو
ٹوٹتا ہے، چرمراتا ہے
خدارا مجھ کو بتلائے
مجسم درد ہوں غم ہوں
سراپا اک تمنا ہوں
مسرت ہوں کہ حسرت ہوں
سمندر ہوں کہ صحرا ہوں
میں اس کے واسطے کیا ہوں
جو میری زندگی ہے
زندگی کی آخری حد ہے
No comments:
Post a Comment