Wednesday, January 21, 2015

میں اس کے واسطے کیا ہوں

میں اس کے واسطے کیا ہوں

جو میری زندگی ہے

زندگی کی آخری حد ہے

میں اس کے واسطے کیا ہوں

میں شاید اس کے کمرے میں پڑا

گزرے ہوئے دن کا کوئی اخبار

جس کو سرسری نظروں سے بھی

دیکھا نہیں اس نے

اک ایسا لفظ

جو اس نے لغت سے کاٹ پھینکا ہے

یا اس کی رائٹنگ ٹیبل پہ رکھے

چند ورقوں کے دباؤ میں پڑا

بے کار سا صفحہ

جسے پڑھنے کی زحمت کی نہیں اس نے

یا وہ کنگھا

کہ جو متروک ہونے کا لقب پا کر

طلسمِ زلفِ تیرہ کی بلندی سے

بہت نیچے

اب اس کی ڈسٹ بن کی تہہ میں

محوِ استراحت ہے

میں وہ کل ہوں

میں وہ گزرا ہوا کل ہوں

جسے وہ سوچنے سے بھی گریزاں ہے

میں ہوں شاید وہ اک نغمہ

کہ جو لب تک رسائی سے

بہت پہلے کہیں دم توڑ دیتا ہے

میں وہ لمحہ ہوں

جو اب تک

اسی کے ہجر کی سولی پہ لٹکا ہے

میں اس کی آنکھ سے

چھلکا ہوا آنسو

جو خاک آلود چہرے پر

تمناؤں کا خوں مَل کر

زمیں پر رقص کرتا ہے

میں اک برگِ خزاں ہوں

اس کے قدموں کے تلے جو

ٹوٹتا ہے، چرمراتا ہے

خدارا مجھ کو بتلائے

مجسم درد ہوں غم ہوں

سراپا اک تمنا ہوں

مسرت ہوں کہ حسرت ہوں

سمندر ہوں کہ صحرا ہوں

میں اس کے واسطے کیا ہوں

جو میری زندگی ہے

زندگی کی آخری حد ہے 

No comments:

Post a Comment