Wednesday, January 28, 2015

سال ہی بدلتے ہیں وقت کب بدلتا ہے

آج ایسا لگتا ہے
سال ہی بدلتے ہیں
وقت کب بدلتا ہے
میں نے سارے خوابوں کو
آج پهر نکالا ہے
سوچتا ہوں حیرت سے
یہ تو اب بهی زندہ ہیں
انکے پهول ہونٹوں پر کیسی مسکراہٹ ہے
روشنی ہے آنکهوں میں
خواہشوں کو پیتے ہیں
دل میں رهنے والے سب، اس طرح ہی جیتے ہیں
پوچهتے ہیں مجھ سے وہ
تم کہاں سے آئے ہو
خوابناک لمحوں کو پر عذاب مت کرنا
تم سے پہلے اک تاجر ہم کو یاں پہ لایا تها
اسکے لوٹ آنے تک ہم سےبات مت کرنا
خواب خواب ہوتے ہیں
ان کو کیا خبر ہے کہ
وقت کے مسافر کو
عمر کی رفاقت نے
نقش نقش بدلا ہے
نقش جب بدلتے ہیں
خواب اپنے مالک کی شکل بهول جاتے ہیں
سال آتے جاتے ہیں ، سال آئیں جائیں گے
اور آنے جانے میں ایک دن وہ آئے گا
ہم یہاں نہیں ہوں گے
خواب تو یہیں ہوں گے
سال ہی بدلتے ھیں
وقت کب بدلتا ہے

No comments:

Post a Comment