کبھی خوشبو کے شہرے میں
کبھی رنگوں کی صورت میں
کہیں پر مثلِ دردِ راہ بن کر مُڑ رہے ہیں ہم
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
ہتھیلی پر سفر کی انگنت اندھی لکیریں تھیں
سروں پر دھوپ تھی اور پاؤں تھے جلتی زمینوں پر
ہمیں چلنا تھا سو چلتے رہے چلتے رہے ہر پل
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
کسی موسم کے ماتھے پر نہیں لکھا گیا ہم کو
مگر اک آس کی خوشبو ہمارے ساتھ تھی ہر دم
کوئی تھا منتظر اپنا ، کسی کے منتظر تھے ہم
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
کبھی اس پار ، کبھی اُس پار
واہ
ReplyDelete