آبگینے
ذرا دھیرے سے تم چلنا
کہ یہ تو آبگینے ہیں
یہی وہ آبگینے ہیں
کبھی ہو پیاس کی شدت تو یہ پانی پلاتے ہیں
کبھی سورج کی ہو حدت تو یہ سایہ بناتے ہیں
یہ ہیں آنگن کے تارے جو ہمیشہ جگمگاتے ہیں
مکاں کو گھر بناتے ہیں
انھی میں وہ قرینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں
یہی وہ آبگینے ہیں
کہ جو گھر بھر کی زینت ہیں
یہی آنکھوں کی ہیں ٹھنڈک
یہی فرحت بھی ‘ راحت بھی
انھی سے رونقِ محفل
انھی سے حرمت محمل
بھری شاداب دنیا میں
یہی سرسبز اک حاصل
یہی جنت کے زینے ہیں
کہ ہیں یہ ماں
یہی بیٹی ‘ یہی بہنا
یہی ہیں ہاتھ کا گہنا
محاذوں پر جو نکلو تو
کبھی پیروں کی بیڑی بھی
بنیں پسلی سے ہیں یہ
اس لئے تھوڑی سی ٹیڑھی بھی
مگر تم توڑ مت دینا
انھیں مستور ہی رکھنا
کہ عصمت کے نگینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں
کبھی سوچا بھی ہے تم نے
یہ کتنا دُکھ اٹھاتی ہیں
تمھاری زندگی کو کس طرح شاداں بناتی ہیں
تمھاری راہ کے کانٹے
یہ چن لیتی ہیں پلکوں سے
سفر آساں بناتی ہیں
سنور جائیں اگر
اک نسل کا ایماں بناتی ہیں
پھر ان معصوم کلیوں کو
یہی بصری
یہی سفیاں بناتی ہیں
Thursday, January 8, 2015
آبگینے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment