Thursday, January 8, 2015

آبگینے

آبگینے
ذرا دھیرے سے تم چلنا
کہ یہ تو آبگینے ہیں
یہی وہ آبگینے ہیں
کبھی ہو پیاس کی شدت تو یہ پانی پلاتے ہیں
کبھی سورج کی ہو حدت تو یہ سایہ بناتے ہیں
یہ ہیں آنگن کے تارے جو ہمیشہ جگمگاتے ہیں
مکاں کو گھر بناتے ہیں
انھی میں وہ قرینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں
یہی وہ آبگینے ہیں
کہ جو گھر بھر کی زینت ہیں
یہی آنکھوں کی ہیں ٹھنڈک
یہی فرحت بھی ‘ راحت بھی
انھی سے رونقِ محفل
انھی سے حرمت محمل
بھری شاداب دنیا میں
یہی سرسبز اک حاصل
یہی جنت کے زینے ہیں
کہ ہیں یہ ماں
یہی بیٹی ‘ یہی بہنا
یہی ہیں ہاتھ کا گہنا
محاذوں پر جو نکلو تو
کبھی پیروں کی بیڑی بھی
بنیں پسلی سے ہیں یہ
اس لئے تھوڑی سی ٹیڑھی بھی
مگر تم توڑ مت دینا
انھیں مستور ہی رکھنا
کہ عصمت کے نگینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں
کبھی سوچا بھی ہے تم نے
یہ کتنا دُکھ اٹھاتی ہیں
تمھاری زندگی کو کس طرح شاداں بناتی ہیں
تمھاری راہ کے کانٹے
یہ چن لیتی ہیں پلکوں سے
سفر آساں بناتی ہیں
سنور جائیں اگر
اک نسل کا ایماں بناتی ہیں
پھر ان معصوم کلیوں کو
یہی بصری
یہی سفیاں بناتی ہیں

No comments:

Post a Comment