کبھی کبھی عجیب سوچیں دماغ میں آتی ہیں
سوچتا ہوں
چودہ سو سال پہلے
دنیا چل رہی تھی، شاید ویسی ہی جیسی پندرہ سو سال پہلے چل رہی تھی،
پھر شاید اللہ کو انسانوں پر رحم آتا ہے، یا یوں کہہ لیجئے مہربانی کا خیال آتا ہے
ایک انسان کو بھیجا جاتا ہے
جسکی پیدائش ہے خرق عادت واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے
جو نبیوں کا سردار ہوتا ہے
جو کائنات کو چلانے والے، کائنات کو پیدا کرنے والے، مخلوق کو روزی پہنچانے والے کا محبوب ہوتا ہے
لیکن پیٹ پر پتھر باندھ کر فاقے برداشت کرتا ہے۔
جس کی ایک دعا پر شاید سونے کے پہاڑ اس کے سامنے آشکارہ ہوجاتے لیکن صبح اٹھ کر گھر والوں سے پوچھتا ہے کہ
"آج کچھ کھانے کو ہے یا روزہ رکھ لوں؟"
با اختیار ایسا کہ ایک انگشت کی جنبش پر اللہ کے حکم سے چاند کے دو ٹکڑے کردیتا ہے،
لیکن کیا؟ کہ امت کے غم میں طائف میں پتھر کھاتا ہے، جوتا مبارک خون سے بھر جاتا ہے اور اپنے معبود سے کہتا ہے
"یا اللہ ان کو ہدایت دے، یہ مجھے جانتے نہیں۔"
میں حیران ہوتا ہوں کہ وجہ کائنات کو جوتا مارنے والے کو اللہ دیکھ رہا ہوتا ہے
اور زمین کو حکم نہیں دیتا کہ اسے نگل جا؟
میں سوچتا ہوں کہ محبوب خدا کے قتل کے منصوبے بنانے والوں کو اللہ دیکھ رہا ہوتا ہے، مسکرا رہا ہوتا ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو آج نبی کے قتل کے منصوبے بنارہے ہیں یہ کل نبی کے لیئے جان دینگے۔
لوگوں کو دوزخ سے نکالنے کیلیئے خود کو ہلکان کرنے والا نبی،
اذیت دینے والوں سے محبت کرنے والا نبی،
دنیا کو صرف 23 سال کے عرصے میں ایک لازوال تبدیلی سے ہمکنار کرنے والا نبی،
وہ ذات، جس کا گھر، جس کا شہر، جس کی راہگزر، جس کا جوتا، جس کے کپڑے، جس کے پرتن، جس کا نام، جس کی پر چیز ہمارے لیئے تبرک کا باعث بن گئی،
کیا ہوگا وہ؟
کیسا ہوگا وہ؟
کیا نہیں کرسکتا تھا وہ؟
لیکن اس کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے
تو صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے
وہ امت کے غم میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتا تھا،
اس کی زندگی کا صرف ایک مقصد تھا
"امت دوزخ سے نکل کر جنت میں چلی جائے"
امت اپنی زندگی کا مقصد پہچان لے۔
اور اس مقصد کا خلاصہ صرف ایک شعر ہے:
محمد کی غلامی دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
صلی اللہ علیہ وسلم
یہ میرے دل کے احساسات ہیں، اگر الفاظ بے ترتیب لگیں تو معذرت!!
No comments:
Post a Comment