میں اسی طور سے گرداں ہوں زمانے میں، وہی
صبح ہے، شام ہے، گہنائی ہوئی راتیں ہیں
کوئی آغاز، نہ انجام، نہ منزل نہ سفر
سب وہی دوست ہیں، دہرائی ہوئی باتیں ہیں
چہرے اُترے ہوئے دن رات کی محنت کے سبب
سب وہی بغض و حسد، رشک و رقابت، شکوے
دام تزویر ہے، اُلجھاؤ کی سو گھاتیں ہیں
سب گلی کوچے وہی، لوگ وہی، موڑ وہی
یہ وہی سردی ہے، یہ گرمی، یہ برساتیں ہیں
زلف کی بات ہے یا زہر کہ سب ڈرتے ہیں
کوئی دل دار، نہ دل بر، نہ ملاقاتیں ہیں
کوئی بشاش ہنسی، جینے کی نوخیز اُمنگ
کچھ نہیں بس غم و اندوہ کی باراتیں ہیں
تنگ دامانی کا شکوہ ہے خدا سے ہر وقت
ہر مرض کے لیے نسخے میں مناجاتیں ہیں
جی اُلٹ جاتا ہے اس حبس مسلسل سے مرا
ذہن جاتا ہے کسی نازش خوبی کی طرف
یعنی وہ پرتو گل خانہ بر انداز چمن
ایک پروائی کا جھونکا سا گھنی بدلی سی
شاہد نکہت و انوار سحر، راحت من
رسم دلداری ہے اس سیم بدن کے دم سے
اور مرے دم سے ہے عشاق کا بے داغ چلن
Thursday, January 8, 2015
میں اسی طور سے گرداں ہوں زمانے میں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment