ہمیں ہمارے بڑے اکثر اوقات کوئی بات سمجھاتے ہیں نصیحت کرتے ہیں ہمیں روکتے ٹوکتے ہیں جو کہ ہمیں برا لگتا ہے ہم فورا انکی بات کا جھٹ پٹ کوئی جواب دے دیتے ہیں یا منہ بناتے ہیں کبھی کبھی دل میں اس بات کو لے کر کدورت پال لیتے ہیں ہم یہ نہیں سوچتے کہ جو ہمارا بھلا سوچتے ہیں ہمیں کو بات سمجھانا چاہتے ہیں اس میں بالآخر ہماری ہی بھلائی ہے اور ہمارا دینا، بات سننے کے بجائے بحث کرنا ان کے دلوں کو کتنی ٹھیس پہنچاتا ہے ان کی دل آزاری ہوتی ہے اور کبھی کبھی ہمارے ناروا سلوک ہمیں ان اپنوں سے اس قدر دور کر دیتے ہیں کہ جب کچھ کہنے سننے کو باقی ہی نہیں رہتا. ہم اپنی اصلاح کر دروازے اپنے آپ پر خود ہی بند کر رہے ہوتے ہیں اور اگر ہمارے بزرگ اگر کچھ غلط بھی کہیں تو ان کا مقصد غلط نہیں ہو سکتا اس لیے ہمیں چاہئے کہ فورا پلٹ کر جواب نہ دیں پہلے غلط اور صحیح کا فیصلہ کریں پھر انتہائی ادب کے ساتھ اپنی بات یا خیال ان سے شئیر کریں اور اس پر بھی اصرار نہ کریں کہ ضرور ہی آپکی بات مانی جائے. ہمارے بڑے درست ہوں یا غلط ہمارا غصے یا بے صبری سے دیا ہوا جواب بار حال ہمیں گستاخ اور نافرمان بنتا ہے اور اگر نافرمانی اور ناراضگی والدین سے ہو تو ہم گناہ کبیرہ کرتے ہیں اور اگر کسی اور بزرگ یا اپنے سے بڑے سے ہو تو ہم بے ادب بنتے ہیں اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب. سو زرا سوچیے آپ کس راستے پر چلنا چاہتے ہیں اصلاح اور کامیابی کے یا بے ہدایتی اور نا فرمانی کے. زبان میں ہڈی نہیں ہوتی اور اس کی بے لگامی آپ کو تباہ کر سکتی ہے اور اس کی حفاظت آپ کو سرخرو.
No comments:
Post a Comment