Thursday, January 1, 2015

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انداز بیان

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انداز بیان شیریں اور محبت و دل سوزی سے لبریز ہوتا ، آپ کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی آواز مخاطب کے دل میں اتر جاتی ، آپ کا انداز بیان اس قدر مشفقانہ اور خیرخواہانہ ہوتا کہ مخاطب مجال سرتابی نہ کرسکتا اور آپ کی بات کو نہایت خوش دلی سے عملی جامہ پہنانے کو تیار ہوجاتا ۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاندان قریش کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ” قافلے کا دیدبان کبھی بھی اپنے ساتھیوں سے جھوٹ نہیں بولتا ، اللہ کی قسم ! اگر میں (بفرض محال) تمام لوگوں سےغلط بات کہنے پر آمادہ ہو بھی جاتا تب بھی تم سے غلط بات نہ کہتا ۔ اگر (بفرض محال ) تمام لوگو ں کے ساتھ دھوکہ دہی کرتا ‘ تب بھی تمہارے ساتھ دھوکہ دہی نہیں کرتا ۔ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں میں تمام لوگوں کی جانب اور خاص طور پر تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں ۔ جس طرح تم سو جاتے ہو پھر نیند سے بیدار ہوتے ہو اللہ کی قسم ویسے ہی تم کو مرنا ہے اور مرنے کے بعد جی اٹھنا ہے ، تم سے تمہارے کاموں کا حساب لیا جائے گا ،تمہیں بھلائی کا بدلہ بھلائی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے ضرور دیا جائے گا اور یہ بدلہ یا تو ہمیشہ کی جنت کی شکل میں ہوگا یا ہمیشہ کی جہنم کی صورت میں “۔
دیکھئے مربی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انداز بیان ،محبت اور دل سوزی سے لبریز لب و لہجہ کہ ایک ایک جملہ سے محبت اور خیرخواہی ٹپک رہی ہے ، عقلی اور جذباتی اپیل کے ساتھ ساتھ آپ نے توحید ،رسالت اور آخرت کی حقیقتوں کو بحسن و خوبی ان کے ذہن نشیں کیا ۔
آپ کی یہ ہمدردی محض زبانی نہ تھی بلکہ آپ لوگوں کے سراپا معاون اور مددگار تھے ، لوگوں کے دکھ درد میں بذات خود شریک ہوتے ،مصائب میں ان کی دل جوئی کرتے ،ہمیشہ لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتے ، اظہارمحبت کے لیے مصافحہ اور معانقہ بھی کرتے ، آپ کا یہی اسوہ لوگوں کو آپ کا گرویدہ بناتا اور وہ آپ کے ہر حکم پر جان دینے کے لیے تیار رہتے ۔
ایک بار ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے لیے آیا ، آپ نے دیکھا کہ اس کی ہتھیلیوں پر نشانات پڑے ہوئے ہیں ، آپ نے وجہ دریافت کی تو اس نے کہا : یا رسول اللہ میں ایک مزدور آدمی ہوں ، کسب حلال کے لیے مجھے پتھر توڑنا پڑتا ہے ، اس سخت محنت کی وجہ سے یہ نشانات پڑ گئے ہیں ، جب آپ نے یہ بات سنی تو فرط محبت میں اس کے ہاتھ چوم لیے ۔
غور کیجئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فعل مبارک سے اس کا کتنا دل بھر آیا ہوگا اور اس کا حوصلہ کتنا بلند ہوا ہو گا ۔
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ محبت و خیرخواہی کا اظہار کرنا تو دور کی بات ہے کسی کے فعل خیر پر ہمت افزائی بھی نہیں کرتے ۔ اور اگر کسی سے جانے انجانے کوئی چوک ہو جائے تو وہی لوگ اس کا چرچا کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ گویا اس شخص میں کوئی خوبی ہی نہیں ۔بلکہ اس کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا ہے جیسے وہ انسان ہی نہیں ، اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریق کار بالکل الگ تھا ، آپ لوگوں کی اچھائیوں کا تذکرہ کرتے اور ان کی بُرائیوں پر پردہ ڈال دیا کرتے تھے ۔
یہاں ایک لمحہ کے لیے رک کر ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو خورد بین لیے دوسروں کے عیوب کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور اپنی نگاہوں سے انہیں ساقط کرتے رہتے ہیں ۔ حضرت علی نے بہت پتے کی بات کہی ہے :
”بہترین عالم وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں کرتا اور نہ اللہ کی نافرمانی کے لیے رخصت دیتا ہے، اور نہ اللہ کے عذاب سے انہیں بے خوف بناتا ہے “

No comments:

Post a Comment