Thursday, January 1, 2015

جو کبھی ہمیں بہت پسند تھا

ہول آتا ہے یہ سوچ کر کہ اب گھروں میں مسی روٹیاں نہیں بنتی۔ سوجی کی پنجیری نہیں تیار کی جاتی ۔ ایمان داری سے بتائیے گا آپ کو کتنا عرصہ ہوگیا ہے السی اور چاول کی پنیاں کھائے ہوئے ؟ سونف اور گری باداموں والا گڑ آخری بار کب کھایا تھا ۔ گنے کے رس کی کھیر کب حلق میں اتاری تھی ؟ گھی میں بنائی ہوئی مونگ اور چنے کی دال کا "دابڑا" کب چکھا تھا ؟ بھینس کی بوہلی کھائے کتنا عرصہ بیت گیا ۔ کچھ کو تو بوہلی کا پتہ بھی نہیں ہوگا کہ کیا ہوتی ہے 
یہ غذائیں ہمیں اس لیے بھی یاد نہیں کہ ان کے ذکر سے ہی پینڈو پن جھلکتا ہے ۔ شہری لگنے کے لیے پیزا، برگر ، شوارما ، سینڈوچ ، سلائس اور نگٹس کھانا اور انکے نام آنا بہت ضروری ہے 
مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ہر صورت دوسرے کو متاثر کرنے کا جنون ہوگیا ہے اور یہی جنون ہم سے اصل زندگی چھینتا جا رہا ہے ۔ کیا مونگ مسور کی تڑکے والی دال کے آگے " پران" کی کوئی حیثیت ہے ۔ کیا کوئی پیزا آلو کے گرم گرم پراٹھوں کا مقابلہ کرسکتا ہے ۔ کیا چلی ساس ، پودینے کی چٹنی سے بہتر ہے ؟ گڑ کی تازہ ڈلی سے بہتر کس کینڈی کا ذائقہ ہے ؟ مٹی کی ہاندی میں پکے کھانے کا سواد کس فائیو سٹار ہوٹل کے شیف کے ہاتھ میں ہے ۔ سرسوں کے تیل سے زیادہ دماغ کو سکون کون سالوشن دے سکتا ہے۔کیا چاٹی کی لسی اور پینا کلاڈا کا کوئی جوڑ بنتا ہے ؟ مکی کی روٹی اور مکھن والے ساگ کے برابر میں جیم اور سلائس رکھ کر دیکھیں خود ہی فرق معلوم ہوجائے گا ۔ 
لیکن یہ چیزیں ہمیں اس لیے پسند نہیں کیونکہ ہم جن لوگوں میں رہتے ہیں انہیں یہ پسند نہیں ۔ دوسروں کی پسند کا خیال رکھنے کی ڈور میں ہمیں ہر وہ چیز بھولتی جارہی ہے جس کے ہم کبھی دیوانے ہوا کرتے تھے ۔ اپنے آپ کو منوانے کے چکر میں اپنا آپ مارنا پڑ رہا ہے ۔ ہم نے کتنی محنت سے اپنے ذائقے تبدیل کرلیے ۔ اپنے حلیے تبدیل کرلیے ۔ اپنے رویے تبدیل کرلیے۔ ہم نے اپنے آپ کو " ماڈرن " کہلوانے کے چکر میں بہت کچھ ایسا چھوڑ دیا جو کبھی ہمیں بہت پسند تھا

No comments:

Post a Comment