Thursday, January 1, 2015

نیا اک خواب کیوں دیکھیں

نیا اک خواب کیوں دیکھیں
اگر طے ہے
کہ آنکھوں میں کوئی جگنو نہ ٹھہرے گا
ستارے آسماں پہ غمزدہ ہوں گے
وہی معمول کے لمحے
بدل کر بھیس آئیں گے
سویرے شام سے ہوں گے
دوپہریں رات کے جیسی
تنفس کی سبھی ڈوریں
ہوا کے ہاتھ میں ہوں گی
فصیل ذات پر اب بھی وہ موسم بے یقینی اور غم کے دائمی ہوں گے
سنہرے مرمریں جذبے وفا میں لب کشا ہوں گے
مگر طے ہے
صدائیں بے نوا ہوں گی
گماں کو خوش گمانی کی قبائیں کس لیئے دیں ہم
ہمیں معلوم ہے اب کے
مسافت نہ کبھی بھی مختصر ہوگی
رسائی بھی نہٰیں ممکن کہ منزل بے خبر ٹھہری
نئے اس سال میں دیکھو نیا کچھ بھی نہیں ہے ناں
سو یادوں کے اثاثوں کو اگر محفوظ کرنا ہے
تو کاروبار فرصت میں
عزائم کے عوض اپنے پرانے خواب کیوں بیچیں
اگرچہ ان سرابوں نے ہمیں تشنہ ہی رکھا ہے
مگر پانی کی چاہت میں ہم اپنا دشت کیوں چھوڑیں
سمے کی تیز آندھی میں گزشتہ سال کو خود سے
جدا ہم کس طرح کر دیں
کہ سال نو کی آمد پر
نیا اک خواب کیوں دیکھیں

No comments:

Post a Comment