نیا اک خواب کیوں دیکھیں
اگر طے ہے
کہ آنکھوں میں کوئی جگنو نہ ٹھہرے گا
ستارے آسماں پہ غمزدہ ہوں گے
وہی معمول کے لمحے
بدل کر بھیس آئیں گے
سویرے شام سے ہوں گے
دوپہریں رات کے جیسی
تنفس کی سبھی ڈوریں
ہوا کے ہاتھ میں ہوں گی
فصیل ذات پر اب بھی وہ موسم بے یقینی اور غم کے دائمی ہوں گے
سنہرے مرمریں جذبے وفا میں لب کشا ہوں گے
مگر طے ہے
صدائیں بے نوا ہوں گی
گماں کو خوش گمانی کی قبائیں کس لیئے دیں ہم
ہمیں معلوم ہے اب کے
مسافت نہ کبھی بھی مختصر ہوگی
رسائی بھی نہٰیں ممکن کہ منزل بے خبر ٹھہری
نئے اس سال میں دیکھو نیا کچھ بھی نہیں ہے ناں
سو یادوں کے اثاثوں کو اگر محفوظ کرنا ہے
تو کاروبار فرصت میں
عزائم کے عوض اپنے پرانے خواب کیوں بیچیں
اگرچہ ان سرابوں نے ہمیں تشنہ ہی رکھا ہے
مگر پانی کی چاہت میں ہم اپنا دشت کیوں چھوڑیں
سمے کی تیز آندھی میں گزشتہ سال کو خود سے
جدا ہم کس طرح کر دیں
کہ سال نو کی آمد پر
نیا اک خواب کیوں دیکھیں
Thursday, January 1, 2015
نیا اک خواب کیوں دیکھیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment