میرے آقا کی عزت وعظمت میں ان خاکوں کی اشاعت سے کوئی کمی نہیں آسکتی ۔ چاند پر تھوکنے والے دراصل اپنے چہرے پر تھوکتے ہیں ۔ اونچے میناروں پر غلاظت اچھالنے والوں کے چہرے پر خود یہ غلاظت آگرتی ہے ۔ مغرب کا چہرہ اس غلاظت سے اب پوری طرح اٹ چکا ہے ۔ اس کا چہرہ پوری طرح سیاہ ہوکر ہمارے سامنے آگیا ہے ۔
مجھے کوئی افسوس نہیں کہ انہوں نے ایسا کیا ہے ۔ کیوں کہ ان کی بری فطرت میں یہ سب رچا بسا ہے ۔ جولوگ ڈائیلاگ اور بین المذاہب ہم آہنگی پر زور دیتے ہیں مغرب کا یہ رویہ ان کے چہرے پر زناٹے دار طمانچے سے کم نہیں ۔ بات یہ نہیں کہ ہم مکالمے کو مانتے نہیں ۔ ہونا چاہیے مگر اس کی توقع شدت پسند مغرب سے کیسے رکھی جاسکتی ہے ۔ ایک جرم اگر غلطی تھا تو اب پوری دنیا میں بالاتفاق ایسا کیوں کیا جارہا ہے ۔ کیا مسلمانوں سے مکالمے اور ڈائیلاگ کا راستہ اختیار نہیں کیا جاسکتاتھا ۔ ہم اپنے شدت پسندوں کو دن رات یہ تلقین کرتے تھک گئے کہ پوری سنجیدگی اور فکری علمی انداز میں مغرب کا مقابلہ کیا جائے ۔ شدت پسندی مسئلے کا حل نہیں مگر مغرب کا یہ اقدام ہر طرح کے قتل عام ، وحشت انگیزی اور درندگی سے بڑھ کر نہیں ؟ اس کے مقابلے میں اگر کوئی صاحب جنوں اٹھ کر اقدام قتل کرتا ہے تو ہمیں اسے کیا سمجھائیں کہ اسے ایسا کیوں کر نہیں کرنا چاہیے ۔ حکمرانوں سے مایوسی اور مکالمے کا نظریہ جوتی کی نوک پر دیکھ کر ایک جوشیلے نوجوان کی خون میں گردش تیز نہیں ہوگی ؟ ایسے وقت میں بالفرض اگر وہ مجھ سے پوچھے کہ میں ایسا کچھ کرنے والا ہوں جواب دیجیے میں اسے کیا کہوں گا ۔ مجھ سے تو خود کوئی جواب نہیں بن پائے گا۔
Friday, January 16, 2015
میرے آقا کی عزت وعظمت
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment