پاکستانیوں کی اکثریت اپنے پیدائشی ماحول اور اپنے ارد گرد ہر طرف پائے جانے والی بے بسی اور روز مرہ زندہ رہنے کی جستجو میں زندگی گھسیٹنے کے لئیے معاشرے اور بااثر طبقے کی طرف سے مسلط کی گئی کرپٹ اقدار اور بدعنوانی کی وجہ سے محض زندہ رہنے کے لئیے ڈھیٹ بن کر ہر قسم کے ظلم و ستم پہ بہ جبر زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔
اور جب اپنی اور اپنے خاندان کا جان اور جسم سے سانس کا ناطہ آپس میں میں جوڑے رکھنا محال ہو جائے۔ اور ایسا کئی نسلوں سے نسل درنسل ہو رہا ہو اور ہر اگلی نسل کو پچھلی نسل سے زیادہ مصائب و آلام کا سامنا ہو اور اسی معاشرے کے ہر قسم کے رہنماؤں کی اکثریت جن میں مذہبی ۔ علمی۔ سیاسی۔ دینی۔ حکومتی ۔ فوجی۔ قسما قسمی کی حل الممشکلات کی معجون بیچنے والے دھوکے باز۔اٹھائی گیر اور بد ترین بدعنوان ہوں۔ تو وہاں خالی پیٹ۔ اور بے علم ۔ بے شعور عوام سے دیانتداری کا اور وہ بھی سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ظلم ہے۔
کیونکہ مندرجہ بالا حالات ایسا کلچر بنا دیتے ہیں جس میں دیناتداری کا خمیر پیدا ہی نہیں ہوتا۔جیسے رات کو دھوپ نہیں ہوتی۔ اور اس کا مظاہرہ پاکستانی معاشرے میں روزہ مرہ زندگی میں سرعام نظر آتا ہے
کوڑھ کی کاشت کر کے خیر کی امید کیسے باندھی جائے؟
اس کے باوجود اگر پاکستانی قوم میں کچھ اقدار باقی ہیں تو یہ شاید ان جینز کا اثر ہے جو عام عوام کے خون میں شامل ہیں۔ اور ہنوز اخلاقی بد عنوانی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں ۔
اور جہاں تک سو فیصد دیانتداری کا تقاضہ ہے تو وہ دنیا کے عوام میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی ۔اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ دنیا بھر کی جیلوں میں انکے اپنے کرپٹ لوگ بند ہیں۔
حکومتی اداروں کے عام اہلکاروں اور عہدیداروں سے بھی بد عنوانی کا حساب لیا جائے اور انھیں سلاخوں کے پیچھے بند کیا جائے مگر عام اہلکاروں کو معطل کرنے یا چند ایک لوگوں کو بدعنوانی کی وجہ سے ان کے عہدوں سے برخاست کر دینے سے پاکستان کی بد عنوانی پہ قابو نہیں پایا جاسکتا ۔ ایسا کرنا تو دراصل دنیا کی بدترین ایک نمبر کی بدعنوان پاکستانی اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
اسلئیے جب بھی پاکستان میں بد عنوانی ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو لا محالہ طور پہ اس کا آغاز بالادست طبقے اور پاکستان کے وسائل پہ قابض کم ظرف اشرافیہ سے اگر نہ کیا گیا تو ایسی ہر مہم ناکام ہو جائے گی۔
No comments:
Post a Comment