Saturday, January 3, 2015

بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں

ضبط کے زرد آنچل میں
بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں
ضبط کے زرد آنچل میں آپنے
سارے درد چُھپا لیتی ہیں
روتے روتے ہنس دیتی ہیں
ہنستے ہنستے دل ہی دل میں رو لیتی ہیں
خوشی کی خواہش کرتے کرتے
خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں
سو حصوں میں بٹ جاتی ہیں
گھر کے دروازے پہ بیٹھی
اُمیدوں کے ریشم بُنتی
ساری عُمر گنوا دیتی ہیں
میں جو گئے دنوں میں
ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی
اب خود بھی تو
عُمر کی گُرتی دیواروں سی ٹیک لگائے
فصل خوشی کی بوتی ہوں
اور خوش فہمی کاٹ رہی ہوں
جانے کیسی رسم ہے یہ بھی
ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں
اپنا مُقدر دے دیتی ہے

No comments:

Post a Comment