Friday, January 16, 2015

مجھے تم یاد آتے ہو

مجھے تم یاد آتے ہو
کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر
کسی انجان بیماری کی شدت میں
مجھے تم یاد آتے ہو
کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر
مجھے تم یاد آتے ہو
مری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے
مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخور رنجش کھٹکتی ہے
تمہاری بے دردی سلگتی ہے
یا پھر جب مری آنکھوں کے صحرا میں
تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مقدر کے ستا روں پر
زمانوں کے اشاروں پر
ادا سی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر
مجھے تم یاد آتے ہو
سہانی شام ہو کوئی
کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی
کسی کے نام ہو کوئی
مجھے تم یاد آتے ہو
کہیں بارش برس جائے
کہیں صحرا ترس جائے
کہیں کالی گھٹا اتر جائے
کہیں باد صبا ٹھہرے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو

No comments:

Post a Comment