عکس در عکس
گھاؤ اتنے کہ گننے بیٹھیں تو
گنتے گنتے حیات کٹ جائے
درد اتنا کہ دلفگاروں کی
ایک پل کے لیے نہ آنکھ لگے
اتنے موہوم منزلوں کے سراغ
راستہ کوئی اختیار نہ ہو
زندگی وہ کہ جینے والوں کو
ایک ساعت پہ اختیار نہ ہو
خوشیاں اتنی ہوں پیش منظر میں
انگلیوں پر شمار ہو جائیں
ظلم ایسے کہ عہد سازوں کی
ہستیاں بے وقار ہو جائیں
لمحہ بھر میں سفید پوشوں کے
پیرہن داغ دار ہو جائیں
روز و شب سوگوار ہو جائیں
اتنی آزادیاں کہ لفظوں کی
آبرو بیچنا بھی ممکن ہو
اتنی پابندیاں کہ آنکھوں کو
خواب تک دیکھنا نصیب نہ ہو
خامشی اس قدر کہ سینے میں
دھڑکنیں چیختی سنائی دیں
شور اتنا سماعتیں یکسر
بے بسی کی مثال ہو جائیں
بھیڑ اتنی کہ جس طرف دیکھیں
ایک میدانِ حشر کا ہو گماں
اور تنہائی اس قدر گہری
اپنے ہونے کا بھی یقین نہ ہو
Sunday, April 12, 2015
عکس در عکس
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment