سنو جاناں مجھے کچھ دیر سونا ہے
تری بانہوں کی بندش میں
تیری سانسوں کی گردش میں
نہ جانے کتنی صدیوں سے میں جاگی ہوں
میں سونا چاہتی ہوں
سنو جاناں
مجھے ان وصل کے لمحوں میں
تیرے ساتھ رہنا ہے
مجھے کچھ دیر سونے دو
یونہی بانہوں کے گھیرے میں
گلابی خواب دیکھے تھے
مری آنکھوں نے جاناں
مجھے ان خواب لمحوں کو
ذرا محسوس کرنے دو
ہے ریزہ ریزہ مری ذات نہ بکھرے
اسے بانہوں کی بندش میں
مری جاں کچھ سمانے دو
مجھے کچھ دیر سونے دو
اندھیری شب کی ویرانی مری آنکھوں
پہ بھاری تھی
خمار آلود یہ لمحے
مجھے محسوس کرنے دو
بدن کا کرب مٹ جائے گا
انھی بانہوں کے گھیرے میں
مجھے کچھ دیر سونے دو
No comments:
Post a Comment