Monday, April 20, 2015

میری جاں اچھی لگتی ہو

گلوں سا مسکراتی ہو
میری جاں اچھی لگتی ہو
مجھے مجھ سے چراتی ہو
میری جاں اچھی لگتی ہو
کبھی بے ساختہ پن میں
حصار صحن گلشن میں
نگاہوں سے نگاہوں تک
محبت کی پناہوں تک
سفر کرنا امنگوں کا
حیا کے سارے رنگوں کا
سفر کرتے ہوئے اک دم
بصورت دلنشیں موسم
ذرا پلکیں جھکاتی ہو
میری جاں اچھی لگتی ہو
مقدر کے ستاروں پر
ہتھیلی سامنے رکھ کر
کبھی خفگی دکھا لینا
کبھی انکو منا لینا
منا کر روٹھے تاروں کو
فلک کے لالہ زاروں کو
محبت ہی محبت میں
شرارت ہی شرارت میں
کوئی نغمہ سناتی ہو
میری جاں اچھی لگتی ہو
جب آئے جھومتا ساون
فضا کو گدگدائیں دن
نشیلی بدلیاں آئیں
چمن پہ مینہ برسائیں
وہ آنگن میں نکل آنا
حسیں چہرے کا کھل جانا
پھر اک دم ناگہانی میں
ابر سے بہتے پانی میں
ذرا سا بھیگ جاتی ہو 
میری جاں اچھی لگتی ہو
کبھی کاغذ کی پرتوں پر
کبھی رنگیں درختوں پر
وہ میرا نام لکھ لکھ کر
صبح سے شام لکھ لکھ کر
برابر دیکھتے جانا
کبھی سرگوشیاں کرنا
پھر ان باتوں ہی باتوں میں
حسیں مر مر سے ہاتھوں میں
رخ روشن چھپاتی ہو
میری جاں اچھی لگتی ہو

No comments:

Post a Comment