کبھی آنکھوں کی عبادت گاہ میں بیٹھے
پرانے طاقچوں میں گل
چراغوں کو نئی لو سے رفو کر کے
کوئی گم گشتہ سیپارہ پڑھوں
شاید!
نفی اثبات کھل جاۓ
قدر کی رات کھل جاۓ
کبھی ہونٹوں کی محرابوں پہ لکھی آیتیں
میں روح کی مسجد میں دہراؤں
حصار کائنات جسم سے باہر نکل جاؤں
کبھی حیرت زدہ اشکوں کے آب زمزم سے وضو کر کے
کسی اطہر جبییں کے سنگ اسود کے بوسے لوں
کبھی ذات کے غار حرا میں بیٹھ کر سجدے کروں
شاید!
اسی صورت کبھی مجھ پر
محبت کی وحی اترے
No comments:
Post a Comment