Saturday, April 25, 2015

وہ کہتی ہے، غبارِ وقت میں دھندلا گیا جیون

وہ کہتی ہے، غبارِ وقت میں دھندلا گیا جیون
میں کہتا ہوں، پلٹ کر دیکھنا تکلیف دیتا ہے
وہ کہتی ہے کہ تم مجھ کو پکارا ہی نہیں کرتے
میں بولا کیا، کروں کوئی گوارا ہی نہیں کرتا
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کیا مجھے تم یاد کرتے ہو
میں کہتا ہوں کہ جانِ من تمہیں میں بھولتا کب ہوں
وہ کہتی ہے کہ اب تو رائیگاں لگتا ہے سارا کچھ
میں کہتا ہوں، مجھے تو رائیگانی کا بھی دھوکا ہے
وہ کہتی ہے، تمنائیں سلامت ہی نہیں اب تو
میں کہتا ہوں کہ جیون میں یہ ٹھہراؤ بھی آتا ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، شورش، چشمِ تماشہ کیا ہے
میں کہتا ہوں، کہ یہ تو شورش عالم کا حصہ ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بیعت سلطان غم کیونکر
میں کہتا ہوں کہ یہ آداب ہیں رسمِ محبت کے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، جبر پر صبر مسلسل کیوں
میں کہتا ہوں کہ جب تک جنگ کی صورت نہیں بنتی
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، عالم بالا کہاں پر ہے
میں کہتا ہوں، ہماری فکر کی بالائی منزل پر
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، سب قیام و نظم کیسے ہے
میں کہتا ہوں، کوئی تو ہے جسے سب ٹھیک کرنا ہے
وہ کہتی ہے، رزقِ خاک بے معنی ہوں دنیا میں 
میں کہتا ہوں کہ یہ سارا نظامِ آدمیت ہے
وہ کہتی ہے، میں عجز فطرت کونین ہوں جاناں 
میں کہتا ہوں، مجھے معلوم ہے اے عظمتِ خاکی
وہ کہتی ہے، خوابِ نورِ باطن ہوں صحیفوں میں
میں کہتا ہوں، کسے انکار ہے اے خواہشِ یزداں
وہ کہتی ہے، میں حسنِ نرمیِ احساس ہوں فرحت
میں کہتا ہوں کہ میں تو خود گواہ لمسِ شبنم ہوں
وہ کہتی ہے کہ میں خوشبوئے عطر سرخیِ صبح ہوں
حواسِ خمسہ عالم مجھے محسوس کرتے ہیں
فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment