آج بھی شام اداس رہی
آج بھی تپتی دھوپ کا صحرا
تیرے نرم لبوں کی شبنم
سائے سے محروم رہا
آج بھی پتھر ھجر کا لمحہ
صدیوں سے بےخواب رْتوں کی
آنکھوں کا مفہوم رہا
آج بھی اپنے وصل کا تارا
راکھ اڑاتی شوخ شفق کی منزل سے معدوم رہا
آج بھی شہر میں پاگل دل کو
تیری دید کی آس رہی
مدت سے گم سم تنہائی
آج بھی میرے ساتھ رہی
آج بھی شام اداس رہی
No comments:
Post a Comment