Monday, April 13, 2015

مختصر بات

سیاستدانوں کو ٹیلی ویژن پر بھاشن دیتے ھوئے مجھے ھمیشہ اپنی بڑی خالہ جان یاد آ جاتی ھیں۔
وہ بھی کسی سادہ سے سوال کے جواب میں ایک طویل داستان شروع کر دیتی تھیں۔ مثلاً میں پوچھتا ھوں کہ ، ”خالہ جان آج آپ دوپہر کے کھانے کیلئے کیا پکا رھی ھیں؟“۔
تو وہ کچھ یوں آغاز کرتی تھیں کہ ، ”میں جو گھر سے نکلی ھوں تو راستے میں فاطمہ جولاھی مل گئی، اس کا بیٹا دوبئی میں ھے۔ اس نے ایک پورا صندوق کپڑے لتّے کا ماں کو بھیجا ھے، تو فاطمہ جولاہی نے مجھے وہ سارے کپڑے دکھائے“۔
خالہ جان نہایت تفصیل سے ھر کپڑے اور ھر لباس کے بارے میں مجھے آگاہ کرتیں کہ ان میں سے کتنے سوٹ کمخواب کے تھے اور کتنے سوٹوں پر کتنی تعداد میں موتی ٹانکے گئے تھے.
ازاں بعد وہ آشاں بی بی سے ملاقات کی تفصیل بیان کرنے لگتیں اور جب میں بیزار ھو کر کہتا کہ ”خالہ جی میں نے تو آپ سے پوچھا تھا کہ آج دوپہر کے کھانے پر آپ کیا بنا رھی ھیں؟“۔ تو وہ سخت خفا ھو جاتیں اور کہتیں کہ "ایک تو آج کل کے بچوں میں صبر نہیں ھے، بات سننے کا حوصلہ نہیں۔ میں نے دوپہر کے کھانے کے لئے ٹینڈے پکائے ھیں“۔
ویسے خالہ جان اِن سیاست دانوں کی مانند دروغ گو اور منافق نہ تھیں ، جو دل میں ھوتا تھا وہ بیان کر دیتی تھیں، اگر چہ قدرے "تفصیل" سے کرتی تھیں۔
”مُستنصر حسین تارڑ“
”مختصر بات اور باتوں کے خربوزے“ سے اقتباس

No comments:

Post a Comment