کہانی گر
بتاؤ نا ۔۔۔ تمہیں کچھ ربط میں بخشوں
خرابانِ محبت کی
غمِ ہجراں سے نسبت کا
اگر دوں آگہی تم کو
کہیں کچھ پھول کانٹے سیپ موتی اشک میں سونپوں
دریدہ دل کی وحشت تک رسائی تم کو باہم دوں
کہو تم مان تو لو گے جو میرے روگ ہیں کاری
فراقِ یار میں الفاظ میں جو کہہ نہیں سکتا
میرے کچھ زخم ایسے ہیں جنہیں میں سہہ نہیں سکتا
میرے حرفِ عقیدت کو کوئی پھلواری بخشو گے؟؟
میرے اس درد و درماں کو کہیں دلداری بخشو گے؟؟
یہ تانے بانے لفظوں کے میرے بس میں نہیں آتے
مجھے لکھنا نہیں آتا، مجھے لکھنا اگر آتا
اُسے میں قید کر لیتا غزل کہتا نظم کہتا
میں کچھ بھی بحر چُنتا مقطع و مطلعہ بنا لیتا
اُسے دیتا غزل کا روپ ٹھمری سا سجا لیتا
نظم کہتا کوئی جس میں وصل جُز لازمی ہوتا
سطورِ حد میں جذبوں کا تلاطم بیکراں ہوتا
سُنو پیارے سُنو محرم میرے پیارے کہانی گر
تُم اب کی بار یوں کرنا
کہانی کچھ بھی لکھ دینا
قبل کچھ پل ختم شُد سے، اُسے میری بنا دینا
"اُسے میری بنا دینا
Sunday, April 12, 2015
کہانی گر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment