Saturday, April 25, 2015

وہ کہتی ہے، مجھے مایوسیاں رستہ نہیں دیتیں

وہ کہتی ہے، مجھے مایوسیاں رستہ نہیں دیتیں 
میں کہتا ہوں کہ یہ مایوسیاں طاقت بھی ہوتی ہیں
وہ کہتی ہے، بہت تنہا ہوں میں اس پوری دنیا میں
میں کہتا ہوں کہ یہ احساس تو ہوگا خدا کو بھی
وہ کہتی ہے کہ مجھ پر شہر کے وحشی لپکتے ہیں
میں کہتا ہوں کہ تم کردار کو سینہ سپر کر دو
وہ کہتی ہے، ہجوم بد روش سے خوف آتا ہے
میں کہتا ہوں، مجھے اجڑی ہوئی گلیاں ڈراتی ہیں
وہ کہتی ہے، مجھے بے حس زمانے سے شکایت ہے
میں کہتا ہوں کہ شکوہ شکایت رائیگاں ہے سب
وہ بولی، تم کہاں غائب ہوئے رہتے ہو راتوں کو
میں بولا، میں تو بس آوارہ پھرتا ہوں اداسی میں
وہ بولی، فون بھی اکثر بہت انگیج رکھتے ہو
میں بولا، بے سروپا گھنٹیوں سے خوف آتا ہے
وہ بولی، تم بہت کنجوس ہو خط بھی نہیں لکھتے
میں بولا، خط لکھوں تو شاعری ناراض ہوتی ہے
وہ بولی، تم کبھی ملنے چلے آؤ جو ممکن ہو
میں بولا، یہ تو تم نے میرے دل کی بات کہ دی ہے
وہ بولی، آج موسم میں عجب سی خوشگواری ہے
میں بولا، ہاں یہ موسم پیار سے ملنے کا موسم ہے
وہ کہتی ہے کہ اب آوارگی سے کچھ نہیں حاصل
مجھے حیرت ہے یہ سب کچھ وہ مجھ بادل سے کہتی ہے
وہ کہتی ہے، ہوا تو بانجھ پن تقسیم کرتی ہے
میں کہتا ہوں، مگر دھرتی ہوا کے بس سے باہر ہے
وہ کہتی ہے، شبیں دھوکے میں رکھتی ہیں ہمیشہ ہی
میں کہتا ہوں، کہیں یہ تو نہیں دھوکا دنوں میں
وہ کہتی ہے، مجھے تو زندگی سے ایک شکوہ ہے
ہمیشہ سائلوں کو موت کے سائے میں رکھتی ہے
وہ کہتی ہے، خدا ملتا تو اس سے بات کرتی میں
میں کہتا ہوں، مگر میں تو خاموشی بانٹتا رہتا
وہ کہتی ہے کہ فرحت بے ضرر رہنا نہیں اچھا
میں کہتا ہوں، کئی اچھائیاں بس میں نہیں ہوتیں
فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment