Monday, April 13, 2015

ہمیشہ خواب بن کر خواہشوں کی آنکھ میں

ہمیشہ خواب بن کر خواہشوں کی آنکھ میں
تم گم ہی رہتے ہو
لرزتے سائے کی صورت ہمیشہ دسترس سے دور رہتے ہو
کبھی تم سامنے آؤ
تمہیں وہ خوف دکھلاؤں
کہ جو خوابوں کے اکثر ٹوٹ جانے پر
کسی کی مردہ آنکھوں سے ٹپکتا ہے
تمہیں سمجھاؤں دیواروں سے باتیں کیسے ہوتی ہیں
کوئی بھی بات جو ہوتی نہیں وہ کس قدر تکلیف دیتی ہے
بدن کے چاک پر خواہش کی مٹی سے کھلونے کیسے بنتے ہیں
جدائی اور تنہائی کے ڈر سے
بدن یوں ڈھیر ہوتا ہے
کہ جیسے بارشوں میں کوئی کچا گھر پگھلتا ہے
سنو! جب بھی اداسی قد سے بڑھ جائے
تو پستی کا بہت احساس ہوتا ہے
مرا وجدان تم کو دیکھ کر ہی وجد میں آتا ہے
تو میں شعر کہتا ہوں یا خود کو روند دیتا ہوں
کبھی تم سامنے آؤ کہ میری چند غزلیں اور نظمیں نامکمل ہیں
تمہیں کھونے کے ڈر سے
اب تمہیں پانے کی خواہش بھی نہیں دل میں
مگر پھر بھی کبھی تم سامنے آؤ

No comments:

Post a Comment