وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کسے مجرم سمجھتے ہو
میں کہتا ہوں، اسے جو درد کے معنی نہ سمجھا ہو
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، جھوٹ اور سچائیاں کیا ہیں
میں کہتا ہوں کہ نیت اور نتائج کی پزیرائی
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، سب سے پہلے کون رہتا تھا
میں کہتا ہوں کہ اندازہ یا مفروضہ ہی ممکن ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کون رہ جائے گا دینا میں
میں کہتا ہوں کہ بالکل اک نئی اور اجنبی دنیا
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، موت کے بارے بتاؤ گے
میں کہتا ہوں، خط تنسیخ ہے آغاز سے پہلے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، جنگلوں میں کون رہتا ہے
میں کہتا ہوں، وہی جو شہر میں رہنے سے خائف ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، آسمانوں سے پرے کیا ہے
میں کہتا ہوں، نہ ویرانے نہ آبادی نہ بربادی
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، وقت کو تم کیا سمجھتے ہو
میں کہتا ہوں کہ ہر احساس کے اعداد کی گنتی
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کیا خدا کو مانتے ہو تم
میں کہتا ہوں، یقیناً اور اسے محسوس کرتا ہوں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، یہ مذاہب کے مسائل کیا
میں کہتا ہوں کہ دینا کے بڑے لوگوں کی باتیں ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، خواب کی تعبیر کے بارے
میں اس سے پوچھتا ہوں، عقل کی جاگیر کے بارے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، زندگی کے راز کے بارے
میں اس سے پوچھتا ہوں، دھڑکنوں کے ساز کے بارے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات اور دن کی مسافت کیا
میں کہتا ہوں، یہ سائے ہیں کسی قیدی مسافر کے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، ہم اگر کچھ بھی نہیں ہیں تو
میں کہتا ہوں، نہیں ہونا بھی ہوتا ہے جہانوں میں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، عقل کیا ہے اور دل کیا ہے
میں کہتا ہوں کہ بس اک اختلافِ عملِ پیہم ہے
فرحت عباس شاہ
Saturday, April 25, 2015
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کسے مجرم سمجھتے ہو
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment