Wednesday, April 8, 2015

وہ جو لازوال ہیں ساعتیں

وہ جو لازوال ہیں ساعتیں 
مری دسترس میں نہیں ابھی 
وہی بابِ حرفِ طلسم کھلبے کی ساعتیں 
ابھی منتشر سے خیال ہیں 
ابھی زیرِ صفحہ شب ہے کرمکِ معنی 
جس میں چھپا ہے ممکنِ صبح 
جو ابھی حرف حرف ہے منتظر 
پرِ نیم وا سے جو پھڑپھڑایا کوئی دھندلکا 
مری فصیلِ وجود پر 
تو وہ لوحِ شب کی بساط میں کہیں کھو گیا 
مرے خواب اس سے جدا نہیں 
کہ یقین کا کوئی رنگ اس پہ کھِلا نہیں 
یہ مرے گمان کے پیچ و خم 
یہ صدائے سطوتِ منہدم 
ابھی پھر سے کرنا ہے طے اسے
کہ جو پیشِ دل ہے زمینِ غم 
یہ کفِ عدو پہ کھچا ہوا ہے جو حاشیہ مرے خون سے 
جو چمک رہا ہے قدم قدم 
یہ جو نقطہ وار چمک رہے ہیں ستارے 
زیر و زبر ہیں میرے کنارے 
کیا یہ طلوع ہے
کسی عصرِ کزب و شرور کا 
کہ یہ معنی ہے مرے خط کشیدہ سطور کا 
مری دسترس میں نہیں ابھی
کہ یہ رنگ کون سا آ گیا 
مرے روز و شب کے ملال میں 
کہ یہ کیسے آ کے اتر گیا 
مرے منتشر خد و خال میں 
پسِ شیشہ ء رخِ عصر صدیاں کا زنگ ہے 
ابھی لوحِ شب کی گرفت میں ہیں یہ صورتیں 
ابھی بابِ حرفِ طلسم کھلنے میں دیر ہے 

جاوید احمد

No comments:

Post a Comment