Saturday, April 25, 2015

وہ بولی، تم بھی فرحت زندگی سے روٹھ جاؤ گے

وہ بولی، تم بھی فرحت زندگی سے روٹھ جاؤ گے
میں بولا، ہاں، شاید موت مجھ سے مان جائے گی
وہ بولی، تم خوشی کے گیت کو مایوس کرتے ہو
میں بولا، کیا کروں ان مختصر گیتوں کےموسم کا
وہ بولی، تم تو فرحت خود ہی خود سے ہار جاتے ہو
میں بولا، کیا کروں کمزور ہوں اور بے سہارا ہوں
وہ بولی، کیا یہ سب کچھ اتفاقاً ہے تمہارا غم
میں بولا، یہ بھی ممکن ہے یہ سب احتراماً ہو
محبت میں غموں کی اس قدر یلغار کیوں،۔۔۔۔ بولی
میں بولا، تم کسی دن یہ تو اپنے آپ سے پوچھو
وہ کہتی ہے، سنو فرحت تمہارا خواب کیوں ٹوٹا
میں کہتا ہوں، سرابی دل میں کوئی کینچ پڑتی تھی
تمہاری شاعری میں زندگی کی سسکیاں کیوں ہیں
میں بولا، آنسوؤں کی ابتدائی شکل جو ٹھہرے
وہ کہتی ہے کہ فرحت شاہ میں کچھ مضطرب سی ہوں 
میں کہتا ہوں، سرابی تم تو میری روح جیسی ہو
وہ کہتی ہے، تمہیں کیوں خوف آتا ہے ہواؤں سے
میں کہتا ہوں، سرابی دیپ تو ایسے ہی ہوتے ہیں
وہ کہتی ہے، چلو فرحت ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
میں خاموشی سے اس کے ساتھ چل دیتا ہوں بجھنے کو
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کہا غائب ہو صدیوں سے
میں کہتا ہوں، ہزاروں وسوسوں کے درمیاں گم ہوں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات کی بےچینیاں کیا ہیں
میں کہتا ہوں، وہی جو دوریوں کے دل میں ہوتی ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، خوف کا دورانیہ کیا ہے
میں کہتا ہوں، جو دل اور غم کا ہوتا ہے مصیبت میں
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادلوں کی عمر کتنی ہے
میں کہتا ہوں، تمازت کے مطابق پانیوں کے وقت جتنی ہے
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات اتنی بے زباں کیوں ہے
میں کہتا ہوں، زباں تو درد کی شدت کی ہوتی ہے
فرحت عباس شاہ

1 comment: