وہ بولی، آسمانوں کی طرف نظریں نہیں اٹھتیں
میں کہتا ہوں کہ شاید بوجھ پڑتا ہو نگاہوں پر
وہ بولی، پھر پلٹ آئے، چلے تو پھر پلٹ آئے
میں بولا، بند کوچے کا سفر ہے زندگی اپنی
وہ بولی، ہر سڑک جاتی ہے غم کے شہر کی جانب
میں بولا، اور اگر وہ شہر اپنے دل میں ہو تو پھر
وہ بولی، غم ہمیشہ ساتھ دیتا ہے مصیبت میں
میں بولا، اک ذرا ٹھہرو، مجھے کچھ غور سے دیکھو
وہ بولی، کیا ضروری تھا مجھے تم ساتھ ہی رکھتے
میں بولا، روح بن میں جسم کیا کرتا، کہاں جاتا
وہ بولی، آ گیا ہے ریتلا موسم جدائی کا
میں بولا، میں تیرا صحرا نورد مستقل ٹھہرا
وہ بولی، ریت اڑتی ہے تو آنکھوں میں بھی پڑتی ہے
میں بولا، درد کی ماری ہوئی آنکھوں کو اس سے کیا
وہ بولی، سوچ لو اس دھوپ میں کانٹے برستے ہیں
میں بولا، یہ تو اچھا ہے بدن پر پھول مہکیں گے
وہ بولی، رات زخموں پر بہت ٹیسیں بھی برسیں گی
میں بولا، زخم پر زخموں کو سہ جانے کی عادت ہے
وہ بولی، آرزوؤں کے لہو کا زائقہ کیا ہے
میں بولا، تلخ ہے میٹھا ہے، کڑوا ہے رسیلا ہے
وہ کہتی ہے کہ میں تو مانگ میں سورج سجاؤں گی
میں کہتا ہوں کہ سورج کی وضاحت ہو مگر پہلے
وہ کہتی ہے، میں اپنے دل میں اک دیوار اٹھاؤں گی
میں کہتا ہوں کہ میں اس بات کا مطلب نہیں سمجھا
وہ کہتی ہے، میں آنکھوں میں کوئی صحرا بساؤں گی
میں کہتا ہوں کہ بینائی جھلس جائے گی ایسے تو
وہ کہتی ہے، میں پیڑوں پر تمہارا بخت لکھوں گی
میں کہتا ہوں کہ پیڑوں سے عداوت ہے تمہیں کوئی
وہ کہتی ہے، میں پانی پر تیرا چہرا بناؤ گی
میں کہتا ہوں، مجھے لگتا ہے تیرا دل بھی پانی تھا
فرحت عباس شاہ
Saturday, April 25, 2015
وہ بولی، آسمانوں کی طرف نظریں نہیں اٹھتیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment