Monday, April 20, 2015

تمہیں میں کس طرح دیکھوں

تمہیں میں کس طرح دیکھوں
دریچہ ہے دھنک کا اور اک بادل کی چلمن ہے
اور اس چلمن کے پیچھے چھپ کے بیٹھے
کچھ ستارے ہیں
نگاہوں میں عجب سی ایک الجھن ہے
وہ ہم کو دیکھتے ہیں اور پھر آپس میں کہتے ہیں
"یہ منظر آسماں کا تھا یہاں تک کس طرح پہنچا !
زمیں زادوں کی قسمت میں یہ جنت کس طرح آئی?"
ستاروں کی یہ حیرانی سمجھ میں آنے والی ہے
کہ ایسا دلنشیں منظر کسی نے کم ہی دیکھا ہے
ہمارے درمیاں اس وقت جو چاہت کا موسم ہے
اسے لفظوں میں لکھیں تو کتابیں جگمگا اٹھیں
جو سوچیں اُس کے بارے میں تو روحیں گنگنا اٹھیں
یہ تم ہو میرے پہلو میں
کہ خواب ۔ زندگی تعبیر کی صورت آیا ہے?
یہ کھلتے پھول سا چہرہ
جو اپنی مسکراہٹ سے جہاں میں روشنی کر دے
لہو میں تازگی بھر دے
بدن اک ڈھیر ریشم کا
جو ہاتھوں میں نہیں رکتا
انوکھی سی کوئی خوشبو کہ آنکھیں بند ہو جائیں
سخن کی جگمگاہٹ سے شگوفے پھوٹتے جائیں
چھپا کاجل بھری آنکھوں میں کوئی راز گہرا ہے
بہت نزدیک سے دیکھیں تو چیزیں پھیل جاتی ہیں
سو میرے چار سو دو جھیل سی آنکھوں کا پہرہ ہے
تمہیں میں کس طرح دیکھوں

No comments:

Post a Comment