زمیں پہ پھیلے اداس لوگو!
قریب آؤ !
مری صداؤں کے دائروں میں
کہ میری لہجے کی اوس، لفظوں کے ہاتھ، فقرے کی ہر تسلی
فقط تمہارے دُکھے ہوئے دل کے واسطے ہے
میں جن دنوں گونجتی ہوا تھا
تو سایہ و جسم، رنگ و آواز سے ملا میں
محبتوں، نفرتوں، عقیدوں کی سرزمینوں ۔۔۔
منافقت کی سیہ فصیلوں سے سر پٹختا ۔۔
نگر نگر، شہر شہر گزرا
(یہ ہست کے بازؤوں کے مابین فاصلہ تھا)
تلاش کے اس کڑے سفر سے پگھل گیا میں
تو جسم سے لفظ بن گیا میں ۔۔۔
اداس لوگو!
میں لفظ ہوں، سایہ و سکوں ہوں
جہاں پہ جسموں کے ہر سہارے کا خاتمہ ہے
تمہارے شانوں پہ میں وہاں دستِ ریشمیں ہوں
وہ تم جسے پا کے بھی نہ بھی پاؤ گے
میں اسی لمحہء مسلسل کا آشنا ہوں
اداس لوگو!
تم آسمانوں پہ جا بسو گے، دکھی رہو گے
سمندروں کی تہوں سے موتی اچھال دو گے ۔۔۔ دکھی رہو گے
رقابتوں کے وسیع میدان مار کر بھی تم اپنے دشمن بنے رہو گے
جواز اندر جواز جینے پہ سوئی نفرت لہو رلائے
نہ چاہنے پر بھی بیتے وقتوں کی یاد آئے
کبھی اکیلے کا دکھ ستائے ۔۔
تو میرے شعروں کو گنگنانا
یہ اسمِ اعظم اسی مصیبت کے واسطے ہے
سرور کامران
No comments:
Post a Comment