نگاہوں سے وہ اوجھل ہے
مگر اس کا سراپا
ہر گھڑی میرے تصور میں
کبھی لہجے کی صورت میں
کبھی نظموں کے مصرعوں میں
کبھی پھولوں کی خوشبو میں
کبھی اک کینوس پر
مو قلم کی آڑھی ترچھی رنگ میں بھیگی ہوئی
احساس کی تجسیم کرتی لائنوں میں
اپنے ہونے کی گواہی لے کے آتا ہے
میں اس کو دیکھتا ہوں
دیکھتا ہوں بند آنکھوں سے
اسے میرا تصور روبرو جب لے کے آتا ہے
تو میں اپنے تخئیل سے
اسے پوری طرح محسوس کرتا ہوں
وہ اس کا خوبرو چہرہ
کہ جسے چاندنی شبنم سے دھل جائے
وہ اس کی مدھ بھری آںکھیں
کہ جیسے
چارسو پھیلے ہوئے سارے مناظر میں
کوئی مستی سی گھل جائے
وہ اس کی چال
جیسے
صبح دم باد صبا اٹھکیلیاں کرتی ہوئی گزرے
وہ اس کے بال جیسے
شام کے آنچل پہ کالی رات چھا جائے
یوسف خالد
No comments:
Post a Comment