Saturday, December 3, 2016

وہ

نگاہوں سے وہ اوجھل ہے
مگر اس کا سراپا
ہر گھڑی میرے تصور میں
کبھی لہجے کی صورت میں
کبھی نظموں کے مصرعوں میں
کبھی پھولوں کی خوشبو میں
کبھی اک کینوس پر
مو قلم کی آڑھی ترچھی رنگ میں بھیگی ہوئی
احساس کی تجسیم کرتی لائنوں میں
اپنے ہونے کی گواہی لے کے آتا ہے
میں اس کو دیکھتا ہوں
دیکھتا ہوں بند آنکھوں سے
اسے میرا تصور روبرو جب لے کے آتا ہے
تو میں اپنے تخئیل سے
اسے پوری طرح محسوس کرتا ہوں
وہ اس کا خوبرو چہرہ
کہ جسے چاندنی شبنم سے دھل جائے
وہ اس کی مدھ بھری آںکھیں
کہ جیسے
چارسو پھیلے ہوئے سارے مناظر میں
کوئی مستی سی گھل جائے
وہ اس کی چال
جیسے
صبح دم باد صبا اٹھکیلیاں کرتی ہوئی گزرے
وہ اس کے بال جیسے
شام کے آنچل پہ کالی رات چھا جائے

یوسف خالد

No comments:

Post a Comment