Friday, December 9, 2016

ہوا تھمی تھی ضرور لیکن

ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
وہ شام بھی جیسے سسک رہی تھی
کہ زرد پتوں کو آندھیوں نے
عجیب قصہ سنا دیا تھا
کہ جس کو سن کر تمام پتے
سسک رہے تھے
بلک رہے تھے
جانے کس سانحے کے غم میں
شجر جڑوں سے اکھڑ چکے تھے
بہت تلاشا تھا ہم نے تم کو
ہر ایک رستہ
ہر ایک وادی
ہر ایک پربت
ہر ایک گھاٹی
مگر
کہیں سے تیری خبر نہ آئی
تو یہ کہہ کر ہم نے دل کو ٹالا
ہوا تھمے گی تو دیکھ لیں گے
ہم اس کے رستوں کو ڈھونڈ لیں گے
مگر .... ہماری یہ خوش خیالی
جو ہم کو برباد کر گئی تھی
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
بڑی ہی مدت گزر چکی تھی
ہمارے بالوں کے جنگلوں میں
سفید چاندی اتر چکی تھی
فلک پہ تارے نہیں رہے تھے
گلاب پیارے نہیں رہے تھے
وہ جن سے بستی تھی دل کی بستی
وہ یار سارے نہیں رہے تھے
مگر یہ المیہ سب سے بالاتر تھا
کہ ہم تمہارے نہیں رہے تھے
کہ تم ہمارے نہیں رہے تھے
ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
بڑی ہی مدت گزر چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment