فرق پڑتا ہے!
فرق پڑتا ہے
جب میں کہتا ہوں
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا
لہجہ
کچھ اور ہی بتاتا ہے
لفظ گو ہیں
فرق نہیں پڑتا
نور
آنکھوں میں نہیں رہتا ہے
سانس
سانسوں سے چلی جاتی ہے
دھڑکنیں
دل کی بکھر جاتی ہیں
زخم
پھر سے بپھر جاتے ہیں
جب بھی سوچوں فرق نہیں پڑتا
جب بھی کہتا فرق نہیں پڑتا
میں تو ہر بار یہی چاہتا ہوں
میں تو ہر بار چلا آتا ہوں
چھوڑ دیتا ہوں تیری محفل کو
تیری محفل تیرے زمانے کو
کیا کروں
وقت بہت ظالم ہے
ٹہر جاتا ہے
پلٹ آتا ہے
کسی خوشبو میں بدل جاتا ہے
اسی منظر میں یہ ڈھل جاتا ہے
کوئی دستک سی پھر سے دیتا ہے
کوئی جادو سا پھر سے ہوتا ہے
کوئی دھیرے سے ہاتھ تھامے ہے
کوئی دھیرے سے پھر یہ پوچھے ہے
سچ کیا ہے مجھے بتاو ذرا
کیا تمھیں اب فرق نہیں پڑتا
کوئی فرق نہیں پڑتا ؟
اک حسرت جواب دیتی ہے
بالکل فرق نہیں پڑتا
کوئی فرق نہیں پڑتا
وہ ھولے سے
پھر یہ کہتا ہے
چلو میری قسم اٹھاو ذرا
چلو پھر سے یہی بتاو ذرا
تم کو فرق نہیں پڑتا
اسے بےچارگی سے تکتا ہوں
اس سے پہلے کہ میرے ہونٹ ہلیں
اک قسم !
قسم کھا کے کہتی ہے
پڑتا ہے بہت پڑتا ہے
جب بھی کہتا
فرق نہیں پڑتا
بس صرف
فرق ہی تو پڑتا ہے!
----------------------------------- (اتباف ابرک)
No comments:
Post a Comment