Saturday, December 3, 2016

ابھی جرمِ محبت میں فقط بھیگی ہیں یہ آنکھیں

ابھی جرمِ محبت میں فقط بھیگی ہیں یہ آنکھیں
ابھی تو ہجر کے دشت و بیاباں پار کرنے ہیں ،،،،،
ابھی ان ریگزاروں میں لہو بہنا ھے وعدوں کا ،،،،
ابھی راہوں کے سب کا نٹے مجھے پلکوں سے چننے ہیں
ابھی پر خار راہوں میں مجھے تنہا نہیں چھوڑو
ابھی تو ٹھیک سے مجھکو سنبھلنا بھی نہیں آتا ،،،
رسیور میں مقید ہیں تمہارے رس بھرے لہجے ،،،
ابھی پاؤں سے لپٹے ہیں وصال و قرب کے لمحے
ہمارے درمیان رشتے ابھی نازک سے دھاگے ہیں
انہیں جھٹکے سے مت کھولو یہ سارے ٹوٹ جائیں گے
ابھی تم ہاتھ مت چھوڑو سنو کچھ دن ٹھہر جاؤ
تیرے لہجے سے لگتا ھے بچھڑنا اب مقدر ھے ،،،،،
پلٹنا گر ضروری ھے چلو کچھ خواب دے جاؤ ،،،
جلا کے انہی خوابوں کو اندھیرے دور کر لوں گی
تمہاری روح میں اٹکی  میری سانسیں امانت ہیں
انہیں پورا تو ہونے دو ابھی تم دور مت جاؤ ،،،،
سنو کچھ دن ٹھہر جاؤ ابھی رستہ نہیں بدلو ،،،،
ابھی تو ٹھیک سے مجھکو سنبھلنا بھی نہیں آتا ،،،،،
ابھی تو ٹھیک سے مجھکو بچھڑنا بھی نہیں آتا ،،،،،

فوزیہ شیخ

No comments:

Post a Comment