Wednesday, December 21, 2016

مجھے جب یاد آتے ہیں

مجھے جب یاد آتے ہیں
تمہارے ساتھ گزرے دن
تو پتھر ہوچکی آنکھیں
اچانک پھوٹ پڑتی ہیں
کسی سے کچھ نہیں کہتا
مین دریا اوڑھ لیتا ہوں
تری خاموش تربت کی
بلندی سے گرے ذرّات
جب مٹھی میں لیتا ہوں
یہی احساس ہوتا ہے
تجھے اب یاد کرنے سے
بھلا حاصل ہی کیا ہوگا
............................
پھر ایسے میں
ہوائے خوش گماں آکر
مرا دامن ہلاتی ہے
اچانک یاد آتی ہیں..
مجھے وہ سب حسیں باتیں...
شگوفوں سے معطر...
پھوٹتی خوشبو..
وہ راتیں------
قہقہے...
شوخی....شرارت میں گزارے دن...
زرا سی بات پر اک دوسرے سے روٹھ جانا
اور خود ہی مان جانا بھی
مجھے سب یاد آتا ہے
مجھے ادراک ہے اس کا تو ماضی ہے..
یہی تو اک اذیت ہے
جو ماضی ہے
سدا ماضی ہی رہتا ہے
مراماضی!
ترے پیکر میں ڈھل کر
مری پلکوں کے چھجے پرکھڑا ہوکر
مجھے آواز دیتا ہے
میں اس آواز کے پیچھے لپکتا ہوں
مگر تم بھاگ کر
تربت میں اپنی لیٹ جاتے ہو
بتاؤ نا...
کہ تم کیوں کر
مری آغوش سے اٹھ کر
یہ مٹی اوڑھ لی
یہاں کیوں سوگئے
سنو!اب جاگ جاؤ نا
اگر تم جاگ جاؤگے
تو سب کچھ جاگ جائے گا
اٹھو اور دیکھ لو مجھکو
کہ مین اب لوٹ آیا ہوں
کبھی واپس نہ جانے کو
خدارا جاگ جاؤنا!!!!!

No comments:

Post a Comment