مجھے جب یاد آتے ہیں
تمہارے ساتھ گزرے دن
تو پتھر ہوچکی آنکھیں
اچانک پھوٹ پڑتی ہیں
کسی سے کچھ نہیں کہتا
مین دریا اوڑھ لیتا ہوں
تری خاموش تربت کی
بلندی سے گرے ذرّات
جب مٹھی میں لیتا ہوں
یہی احساس ہوتا ہے
تجھے اب یاد کرنے سے
بھلا حاصل ہی کیا ہوگا
............................
پھر ایسے میں
ہوائے خوش گماں آکر
مرا دامن ہلاتی ہے
اچانک یاد آتی ہیں..
مجھے وہ سب حسیں باتیں...
شگوفوں سے معطر...
پھوٹتی خوشبو..
وہ راتیں------
قہقہے...
شوخی....شرارت میں گزارے دن...
زرا سی بات پر اک دوسرے سے روٹھ جانا
اور خود ہی مان جانا بھی
مجھے سب یاد آتا ہے
مجھے ادراک ہے اس کا تو ماضی ہے..
یہی تو اک اذیت ہے
جو ماضی ہے
سدا ماضی ہی رہتا ہے
مراماضی!
ترے پیکر میں ڈھل کر
مری پلکوں کے چھجے پرکھڑا ہوکر
مجھے آواز دیتا ہے
میں اس آواز کے پیچھے لپکتا ہوں
مگر تم بھاگ کر
تربت میں اپنی لیٹ جاتے ہو
بتاؤ نا...
کہ تم کیوں کر
مری آغوش سے اٹھ کر
یہ مٹی اوڑھ لی
یہاں کیوں سوگئے
سنو!اب جاگ جاؤ نا
اگر تم جاگ جاؤگے
تو سب کچھ جاگ جائے گا
اٹھو اور دیکھ لو مجھکو
کہ مین اب لوٹ آیا ہوں
کبھی واپس نہ جانے کو
خدارا جاگ جاؤنا!!!!!
Wednesday, December 21, 2016
مجھے جب یاد آتے ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment