سمندر میں اُترتا ہوں تو آنکھیں بهیگ جاتی ہیں
تری آنکهوں کو پڑهتا ہوں تو آنکھیں بهیگ جاتی ہیں
تمہارا نام لکهنے کی اِجازت چِهن گئی جب سے
کوئی بهی لفظ لکهتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تیری یادوں کی خُوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سُلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
نہ جانے ہو گیا ہوں اِس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
وه سب گُزرے ہوئے لمحات مجھ کو یاد آتے ہیں
تمہارے خط جو پڑهتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
مَیں سارا دِن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
قدم چوکهٹ پہ رکهتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہر اِک مُفلس کے ماتهے پر اَلم کی داستانیں ہیں
کوئی چہره بھی پڑهتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
بڑے لوگوں کے اُونچے بَدنما اور سرد محلوں کو
غریب آنکهوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ترے کوچے سے اَب میرا تعلق وَاجبی سَا ہے
مگر جب بهی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہزاروں موسموں کی حکمرنی ہے مرے دِل پر
وصی میں جب بهی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
وصی شاہ
No comments:
Post a Comment