Wednesday, December 14, 2016

یہ حرف سارے یہ لفظ سارے

یہ حرف سارے یہ لفظ سارے
یہ چمن و بلبل کے استعارے
حلب کا دکھ کیسے کہہ سکیں گے
وہ سارے گھر جو اجڑ گئے ہیں
وہ میرے ساتھی مرے مجاہد
وہ میرے بچے جو مر گئے ہیں
حلب کے کھنڈروں میں جا کے دیکھو
وہ بکھرے لاشے وہ مسلے چہرے
ظلم کی آندھی بڑی ہے وحشی
امن کی سانسوں پہ اب ہیں پہرے
درندگی کے خمار میں تم
ظلمتوں کے دیار میں تم
بنے ہو شعلہ بنے ہو خرمن
جلے گا جلدی ستم کا آنگن
ہوا میں بارود کی تھی خوشبو
فلک پہ سائہ فگن تھی ظلمت
وہ ڈھیر ملبے کے جا کے دیکھو
دفن ہوئی ان میں اپنی امت
کہا تھا کس نے یہ تم سے ہمدم
میداں میں آؤ اٹھا کے سینے
لگن تھی کیسی یہ تم میں ہمدم
چلے شہادت کا جام پینے
نثار تم نے جو کی ہے جاں یہ
ملی ہے عزت کی موت تم کو
تمہارے مرنے پہ اے شہیدو
پڑا زرا سا نہ فرق ہم کو
جشن منا یا ہے ہم نے لوگو
نبئی رحمت کے آنے پر جو
نبی کے امتی حلب کی اندر
کل کسی وقت مر گئے تھے
لڑے تھے تنہا ستم گروں سے
مرے تھے لیکن جھکے نہیں تھے
عزم یہ کر کے اب تو ہم سب
آخری گولی تک لڑیں گے
گئے جو مقتل میں پھر نہ لوٹے
بروز محشر وہ جب اٹھیں گے
حضور مالک اگر انہوں نے
جو ہم سے پوچھا کہاں تھے تم تب
ہمارے سر پہ اجل تھی رقصاں
کہاں مگن تھے کہاں تھے تم سب
کہو گے ہم تومنا رہے تھے
جشن میلاد مصطفی تب
ہمیں کیا معلوم مالک
یہ لوگ مر گئے کب
سوچتا ہوں بروز محشر میں کیا کہوں گا
حلب کا نوحہ میں کیا لکھوں گا
عبداللّٰہ حماد

No comments:

Post a Comment