دسمبر تم تو اپنے تھے
الم تم تلف کرتے تھے
خوشی کو حرف کرتے تھے
زیست کو عرف کرتے تھے
نظر پھر پھیر لی تم نے
بنے ظالم ہوئے جابر
الم کو حرف کرتے ہو
خوشی کو تلف کرتے ہو
قضا کو عرف کرتے ہو
ارے تم کیا یہ کرتے ہو
سنو کیسے یوں کرتے ہو
عجب سا درد کرتے ہو
کہ نوحہ فرض کرتے ہو
دسمبر اب تھمو جاناں
عزاداری کے موسم میں
کسک بڑھتی ہے شدت سے
فزوں یہ گنج ہوتا ہے
ہمیں یوں رنج ہوتا ہے
ہمیں یوں رنج ہوتا ہے
No comments:
Post a Comment