Friday, December 9, 2016

ہمیں یوں رنج ہوتا ہے

دسمبر تم تو اپنے تھے
‏الم تم تلف کرتے تھے
‏خوشی کو حرف کرتے تھے
‏زیست کو عرف کرتے تھے
‏نظر پھر پھیر لی تم نے
‏بنے ظالم ہوئے جابر
‏الم کو حرف کرتے ہو
‏خوشی کو تلف کرتے ہو
‏قضا کو عرف کرتے ہو
‏ارے تم کیا یہ کرتے ہو
‏سنو کیسے یوں کرتے ہو
‏عجب سا درد کرتے ہو
‏کہ نوحہ فرض کرتے ہو
‏دسمبر اب تھمو جاناں
عزاداری کے موسم میں
‏کسک بڑھتی ہے شدت سے
فزوں یہ گنج ہوتا ہے
ہمیں یوں رنج ہوتا ہے
‏ہمیں یوں رنج ہوتا ہے

No comments:

Post a Comment