Wednesday, December 7, 2016

کچھ لوگ کبھی واپس نہیں آتے

کچھ لوگ کبھی واپس نہیں آتے

بدن بستروں کو طلاق دے دیتے ہیں
انگلیاں تصویروں کے فریم تھامے لکڑی ہو جاتی ہیں
کلینڈر تاریخوں سے بهرے رہتے ہیں
لیکن دن خالی ہو جاتے ہیں
پیروں کو عدالت کا رستہ یاد ہو جاتا ہے
ہونٹوں کو دعائیں بڑبڑانے کی عادت پڑ جاتی ہے
مائیں ہر آنے والے کو یوں تکتی ہیں جیسے وہ ڈاکیا ہو
راتوں کو رونے والے باپ سورج نکلتے ہی بہادر بن جاتے ہیں
انتظار ہیروں جیسی آنکھوں سے نمک کا پانی تاوان لیتا ہے
کچھ لوگ کبھی واپس نہیں آتے

سلمان حیدر

No comments:

Post a Comment