Wednesday, December 31, 2014

زندگی بھر الله تعالیٰ کی تلاش

ہم لوگ زندگی بھر الله تعالیٰ کو بڑی بڑی عبادتوں اور بڑی بڑی خدمتوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں،
ہم اسے مسجدوں ،کلیسائوں، سینا کوکا اور مندروں میں تلاش کرتے ہیں، 
ہم اسے قرآن مجید، بائبل اور توریت میں کھوجتے ہیں
اور ہم اس تک پہنچنے، اس کو پانے کے لئے
بڑے بڑے ہسپتال،بڑے بڑے خیراتی ادارے اور بڑے بڑے دارالامان بناتے ہیں-
لیکن ہمارا خدا ہماری زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات ،ہماری چھوٹی چھوٹی نیکیوں اور ہمارے چھوٹے چھوٹے کاموں میں ہمارا انتظار
کرتا رہتا ہے،
وہ خدا جس تک پہنچنے کے لئے دنیا کے پرہیز گار پوری زندگی سجدے کرتے ہیں اور جسے پانے کے لئے متقی عمر بھر روزے
رکھتے ہیں وہ خدا انسانوں کو پانی کے ایک گلاس، ایک وقت کی روٹی، ایک چادر اور سردیوں کی منجمد راتوں میں ایک رضائی کے عوض مل سکتا ہے-
وہ خدا زمانے کے مارے ،بے بس لوگوں کے پاس بیٹھ کر صدیوں سے ہمارا انتظار کر رہا ہے-
ہم الله تعالیٰ کی جس رحمت اور جس کرم کو قبلوں اور کعبوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں،
الله کی وہ رحمت اور وہ کرم اس کے بندوں کی چھوٹی چھوٹی امیدوں اور چھوٹی چھوٹی حسرتوں میں چھپی رہتی ہے ۔
مجھے محسوس ہوا خدا تک پہنچنے کے تمام راستے اس کی مظلوم، بے بس اور نادار مخلوق کے دل سے گزرتےہیں ۔
اور یہ راستے کبھی فقط بیس روپے اور کبھی پانی کے ایک گلاس کے عوض کھل جاتے ہیں-
مجھے محسوس ہوا خدا ہمیشہ چھوٹے لوگوں کے دلوں میں رہتا ہےاور جب تک ہم ان لوگوں کے دلوں پر دستک نہیں دیتے
اور جب تک ان کا لوگوں کا دل ہمارے لئے نہیں کھلتا اس وقت تک ہم الله تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتے

ﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﺍﺱ ﺁﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ

ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﮔﺰﺭﮮ
ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﺑﯿﺘﮯ
ﺷﺐ ﻭ ﺭﻭﺯ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﺷﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺴﻠﺴﻞ
ﺩﻝ ﻭ ﺟﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﭘَﺮﺗﯿﮟ ﺍُﻟﭩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺯﻟﺰﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﺎﻧﭙﺘﺎ ﮨﮯ
ﭼﭩﺨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺧﻮﺍﺏ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺎﺯﮎ ﺭَﮔﯿﮟ ﭼﮭﯿﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺍِﮎ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮔﺘﯽ ﺻﺒﺢ ﮐﻮ
ﺑﮯ ﮐﺮﺍﮞ ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺍَﭨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺩُﻋﺎ ﺩﮮ ﮐﮯ
ﺍَﺏ ﺗﮏ ﻭﮨﯽﺟﺴﺘﺠﻮ ﮐﺎ ﺳَﻔﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨُﻮﮞ
ﺳﻔﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﮯ
ﺳﻔﺮ ﺁﮔﮩﯽ ﮨﮯ
ﺳﻔﺮﺁﺑﻠﮧ ﭘﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﮞ ﮨﮯ
ﺳﻔﺮ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺳُﻠﮕﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﮬﻮﺍﮞ
ﮨﮯ
ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﮔﺰﺭﮮ
ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﺑﯿﺘﮯ
ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺧﻢ ﻭ ﭘﯿﭻ ﻣﯿﮟ
ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﮭﮏ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﺬﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﯿﻠﯽ ﺯﻣﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﻮﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﻭﺯﻭ ﺷﺐ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺍﮎ ﻓﺼﻞ ﺍﺏ ﭘﮏ ﮔﺌﯽ
ﮨﮯ
ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺳﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺶ ﻭ ﭘَﺲ
ﺧﻮﻑ، ﺩﮨﺸﺖ، ﺍَﺟﻞ، ﺁﮒ، ﺑﺎﺭﻭﺩ ﮐﯽ ﻣَﻮﺝ
ﺁﺑﺎﺩﯾﺎﮞ ﻧﻮﭺ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺒﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ
ﺩﺭﻧﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺻُﻮﺭﺕ
ﻧِﮕﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﻣﺸﻘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﺮ ﮨﮯ
ﮨﺮ ﺍﮎ ﺭﺍﺳﺘﮧ، ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﺭﮦ ﮔﺰﺭ ﮨﮯ
ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺳﺎﻝ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺭﺍ
ﻣﮕﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺩِﻥ
ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮐﭩﮭﻦ ﮨﯿﮟ
ﮨﺮ ﺍﮎ ﺳَﻤﺖ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﺍَﻧﺒﺎﺭ
ﺯﺧﻤﯽ ﺟﻨﺎﺯﻭﮞ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﻗﻄﺎﺭﯾﮟ
ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﭘﺎﺋﮯ
ﮨﻮﺍﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭُﻭﺩ ﮐﯽ ﺑﺎﺱ
ﺧﻮﺩ ﺍَﻣﻦ ﮐﯽ ﻧﻮﺣﮧ ﺧﻮﺍﮞ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ، ﻋﺼﺮِ ﺣﺎﺿﺮ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﯿﺤﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﮯ
ﻣﺮﮮ ﻣﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮ
ﻧﺌﮯ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻣُﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺻﺒﺢ ﮔﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺁﺋﮯ
ﺗﻮ ﻣِﻠﻨﺎ
ﮐﮧ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺳﺎﻋﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﯾﮧ ﺑﺠﮭﺘﺎ ﮨُﻮﺍ ﺩﻝ
ﺩﮬﮍﮐﺘﺎ ﺗﻮ ﮨﮯ
ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺭﺍﺱ ﺁﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ

کوئی ہنر بالکل نہیں آتا

سنو پیارے

مجھے معلوم ہے آسان لگتا ہے

تمہیں راہیں بدل لینا

کوئی بھی موڑ مُڑ جانا

کسی منزل کو ٹھوکر مار کر واپس چلے آنا

یا منزل کو فقط اک جنبش لب سے

بہت نزدیک لے آنا

مجھے معلوم ہے پیارے

بہت آسان ہے تم کو واپس پلٹ جانا

میری تم بے بسی دیکھو

مجھے تم سے محبت کے سوا کچھ نہیں آتا

مگر اس میں بھی کب کوئی قرینہ سیکھ پائی میں

یہ دیکھو آنکھ رونا چاہتی ہے

پھر بھی بنجر ہے

یہ دیکھو ہاتھ کتنے سرد ہیں میرے

یہ دیکھو دل کی دھڑکن کس تیرا ترتیب کھو کر ڈوبنے کو ہے

یہ دیکھو میرا آنچل میرے ہاتھوں سے پھسل کر اُڑ گیا کب سے

یہ دیکھو سانس کی ڈوری بھی مجھ سے چھوٹنے کو ہے

میرے احساس کا ریشم الجھ کر ٹوٹنے کو ہے

مجھے تو یہ ہنر بالکل نہیں آتا

کے کیسے اپنے زخموں کو چھپاتے ہیں

یا کیسے درد کو درمان بناتے ہیں

یا کیسے روٹھتی سانسوں کا دامن

تھام کر واپس بلاتے ہیں

بہت بے خواب اور ویران موسم میں

خفا نیندوں کو کیا کہہ کر مناتے ہیں

مجھے یہ ہنر بالکل نہیں آتا

کے کیسے اپنے مر جانے پہ نوحے آپ کرتے ہیں

یا اپنے ہی گلے لگ کر دلاسا کیسے بانٹتے ہیں

پھر اپنی ہی لاش کو کیسے

کسی پایاب دریا

یا کسی کی ادھ بجھی تازہ چِتا میں جھونک دیتے ہیں

یا پھر آکاش کے نیچے کھلا ہی چھوڑ دیتے ہیں

مجھے تو یہ ہنر بالکل نہیں آتا

کے کیسے زرد موسم میں

کسی بھی سرد اور بے درد موسم میں

خوشی کا ایک بھی غنچہ

بھلا کیسے کھلاتے ہیں

یا کیسے آدھے راستے سے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں

مجھے بالکل نہیں آتا

مجھے تم سے محبت کے سوا

مگر وہ بھی کہاں آئی

کوئی ہنر  بالکل نہیں آتا

لفظ پسِ لفظ

کِس قدر لفظ ھیں
جو ھم بولتے ھیں، رولتے ھیں
کون سا لفظ ھے کھولے گا جو دَر معنی کا
اس کا پتہ کون کرے
تُم تو خوُشبو ھو، ستاروں کی گُزرگاہ ھو تُم
تُم کہاں آؤ گے اِس دشتِ پُراسرار کی پنہائی میں
کیسے اُترو گے تمناؤں کی گہرائی میں
رہ گیا میں
سو اے جانِ وفا
میں تو جو کچھ ھوُں تمہارے ھی خمِ چشم سے ھوُں
تُم ھی جب لفظِ پسِ لفظ سے آگاہ نہیں
کِس طرح سحرِ مفاھیم کا دروازہ کُھلے
لفظ کی کوکھ میں تاثیر کہاں سے اُترے
تُم مِرے ساتھ ھو، ھمراہ نہیں
کون سے خواب کے جگمگ میں نہاں ھیں ھم تُم
کیسے گردابِ تمنا میں رواں ھیں ھم تُم
لفظ کے پار جو دیکھیں تو کوئی راہ نہیں
اور تُم لفظِ پسِ لفظ سے آگاہ نہیں

کہانی مر نہیں سکتی  کہانی پھر جنم لے گی

اک دائرہ ہے
دائرے میں آگ ہے 
اور آگ کے روشن تپش آمیز منظر سے کوئی کردار ابھرا ہے 
عجب ماحول ہے 
اک بے نیازی ہے،جنوں پرور ادا ہے
رقص جاری ہے
تھرکتے پاؤں انگاروں پہ پڑتے ہیں
تو انگاروں کی نبضیں ڈوب جاتی ہیں
انوکھی بے خودی ہے
کیف و مستی ہے
مسلسل رقص جاری ہے 
مگرکچھ فاصلے پر 
منتظر بیٹھی ہوئی یخ بستگی 
یہ سوچتی ہے
کب ادھورے خواب
ان آنکھوں کی پلکوں سے گریں گے
خاک کی پوروں میں اتریں گے 
الاؤ کب بجھے گا 
کب تماشہ ختم ہوگا
کب نئی رت پھر نئے خوابوں کو 
آنکھوں میں سجائے گی
نئے رنگوں سے خوشبو سے 
نیا کردار ابھرے گا
نئی صورت گری ہو گی
کہانی مر نہیں سکتی 
کہانی پھر جنم لے گی

آخری ﮔﮭﻨﭩﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮬﮯ

ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﯾﮧ
ﺳﻔﺎﮎ ﺳﻔﺮ
ﺟﺘﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ
ﺍﻟﺠﮭﺎﺋﮯ ﺭﮐﮭﮯ
ﺟﺲ ﻃﻮﺭ ﻣﺠﮭﮯ
ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮﮮ
ﺟﺲ ﺳﻤﺖ ﺳﮯ
ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﻭﺍﺭ ﮐﺮﮮ
ﺟﺘﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ
ﻣِﺴﻤﺎﺭ ﮐﺮﮮ
ﭘﺮ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﻨﮯ
ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ
آخری ﮔﮭﻨﭩﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮬﮯ

Tuesday, December 30, 2014

مجھے ضرورت ہی کیا تھی لکھوں

مجھے ضرورت ہی کیا تھی لکھوں
بہار رت میں خزاں کے قصے
وفا کے بدلے جفا کی باتیں
کیوں دھوپ دیکھوں سراب لکھوں
کیوں اپنی ہر شب عذاب لکھوں
میرا قلم تو سدا سے لکھے
رفاقتوں کے صداقتوں کے
وہ باب سارے
جو چشم_ بینا پہ بار گزرے
میرا قلم حق کا داعی ٹھہرا
نہ بک سکا ہے نہ جھک سکا ہے
میں جانتا ہوں، یہ مانتا ہوں
میرے وطن کی جبیں پہ چمکے
لہو کے قطرے
یہ وہ لہو ہے، ہماری غیرت کو جو پکارے
وہ گل جو کھلنے سے پیشتر ہی
گۓ ہیں روندے
بتا دسمبر! تمہیں میں کیسے وداع کروں گا
وہ اہل دل، ہمنوا وہ میرے
جو تم پہ چاہت کے باب لکھیں
میں ان سا لکھوں تو کیسے لکھوں
میں سچ کے بدلے کیوں جھوٹ لکھوں
میں اب کے کچھ بھی نہ کہہ سکوں گا
میں اپنی نظروں میں گر گیا ہوں
میں سچ بتاؤں تو مر گیا ہوں

Monday, December 29, 2014

اسی ایک فرد کے واسطے مرے دل میں درد ہے کس لیئے

اسی ایک فرد کے واسطے مرے دل میں درد ہے کس لیئے
میری زندگی کا مطالبہ وہی ایک شخص ہے کس لیئے

تو جو شہر میں ہی مقیم ہے تو مسافرت کی فضا ہے کیوں
ترا کارواں جو نہیں گیا تو ہوا میں گرد ہے کس لیئے

نہ جمال و حسن کی بزم ہے نہ جنون و عشق کا عزم ہے 
سرِ دشت رقص میں ہر گھڑی کوئی باد گرد ہے کس لیئے

جو لکھا ہے مرے نصیب میں کہیں تو نے پڑھ تو نہیں لیا
ترا ہاتھ سرد ہے کس لیئے ، ترا رنگ زرد ہے کس لیئے

کوئی واسطہ جو نہیں رہا تری آنکھ میں یہ نمی ہے کیوں؟
مرے غم کی آگ کو دیکھ کر، تری آہ سرد ہے کس لیئے؟

یہ جو نیل سا ہے فضاؤں میں کہیں زہر تو نہیں ہے وقت کا 
ہے سیہ لباس میں رات کیوں ؟ جو سحر ہے زرد تو کس لیئے

ایک نظم، ایک دعا

ایک نظم، ایک دعا

ہرے درختوں کی خیر مولا !

بلند شاخوں پہ گھونسلوں کے جڑاؤ

کھالوں میں بہتے پانی

ہواؤں کی پُرسکوں روانی کی خیر مولا!

اناج کی دل فریب خوشبو کو

جھومتی ، لہلہاتی فصلوں کو زندگی کی امان سائیں !

لچکتی بیلوں کا ہر چڑھاوا قبول آقا!

سدا ہو

چھتّوں میں شہد ، مٹکوں میں دودھ ، چاٹی میں چھاچھ سائیں !

پھلوں کے رس اور مٹھاس پر بھی سلامتی ہو

مِرے مھیمن!

ترے کرم کو

میں کیاریوں میں کھِلے گلابوں کا واسطہ دوں

کہ تتلیوں جیسی بیٹیوں کا

تجھے بتاؤں ؟ (مگر نہیں ، تُو تو جانتا ہے )

ہمارے پُتلے بنا کے رکھّے گئے ہیں

کن آتشیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر

غبار کر کے

دھواں بنا کر

کسی بھی صورت

ہمیں اُڑانے پہ بات آکر ٹھہر گئی ہے

تجھے خبر ہے

کہ ان فضاؤں کی زندگی کے لیے ہے لازم

ہزار جانب اُڑان بھرتی ہوئی محبت

فلک سے لے کر زمیں کی تہ تک

تمام اسرار ، سب تغیر

ترے اشارے کے منتظر ہیں

تو سائیں پھر اک صدائے کُن دے

اور اُن پرندوں کو زندہ کر

جو ہماری مٹّی میں مر چکے ہیں

طرب کی ساعتیں

طرب کی ساعتیں

رنگ اور خوشبو سے مزین زندگی کی
سب حسیں گھڑیاں جو راحت کی منادی ھوں
وہ سارے دلربا لمحے جو چاھت کے امین ٹھہریں
انھیں سب دلربا گھڑیوں کی سنگت میں
اُسے میری معیت کب گوارہ ھے

اُسے اب عہدِ رنگ و بو کے
سب مہتاب لمحوں میں، کہاں میری ضرورت ھے
مرا اس رنگ و بو میں کوئی حصہ ھی نہیں شاید
میں اُس بزمِ طرب میں ایک حرفِ ناشنیدہ ھوں
کسی اک گنگ لمحے کا کوئی بھولا ھوا سا
اک بہت ھی اجنبی سا استعارہ ھوں

مگر جب زندگی کی سرمئی سی دھند
اسکو گھیر لیتی ھے
تو اسکو یاد رھتا ھے
کہ کوئی ھے
جواپنی نرم پوروں سے
کٹیلے درد چننے کے
سبھی گُر جانتا ھے سو
وہ میرے پاس آتی ھے
فقط رنج و الم کہنے
فقط اِن سرمئی لمحوں کی شدّت کو بیاں کرنے
مجھے معلوم ھے اتنا
کہ میں اُس کے لیے دیوارِ گریہ ھوں
فقط دیوارِ گریہ ھوں

Saturday, December 27, 2014

اخلاق

صبح چہل قدمى كو پارک ميں جانا ہوتا رہتا ہے.. اُس دِن يونہى جى چاہا تو موروں كے پنجرے كے پاس جا كھڑے ہوئے.. يوں تو مور پہلے بھى بہت بار ديكھے تھے ليكن اُس صبح تو لگا كہ جيسے اُن كے ہاں كوئى جشن كا سماں ہے.. يا شائد وه ہر صبح كو يونہى مناتے ہوں.. شائد يونہى ہر سويرے كو نيا سويرا مان كر جھوم جھوم اُس كا استقبال كرتے ہوں..
وه اپنے رنگين پر كھولے گول گول گھومتے.. لگتا تھا جيسے دِل كو بھى اپنے پروں سے باندھے لئے جاتے ہوں.. اُس صبح ميں نے پہلى بار ديكھا كہ وه اپنے پروں كو پورا كھول كر جھنجھناتے بھى ہيں.. كيسى كانوں ميں رَس گھولتى مدھر چھنكار تھى وه كہ جس كى مثال ملنا بھى مشكل..
اُن كو يونہى سرمستى ميں جھومتا چھوڑ جونہى واپسى كو رُخ موڑا تو ايک كريہہ آواز نے قدموں كو جيسے جكڑ ہى ليا.. مُڑ كر ديكھا تو جان كر حيرت ہوئى كہ يہ موروں كے بولنے كى آواز ہے..
ایسا خوبصورت ' ایسی من موہنی اداؤں والا پرندہ.. اور اس پر ايسى کریہہ آواز.......... یقیناً اس میں بھی رَبّ کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہو گی.. لیکن مجھے تو یوں لگا جیسے یہ سب خاص طور سے میرے ہی لئے ہوا ہو.. جیسے مجھے ہی سمجھانے کو خاص طور پر یہ ڈیمونسٹریٹ کیا گیا ہو کہ ظاہری خوبصورتى پر نہ جاؤ.. ظاہرى خوبصورتى دھرى كى دھرى ره جاتى ہے جب زبان سے ادا ہونے والے الفاظ بھدَّے اور زھر بُجھے ہوں..
سچ کہا ہے کسی نے.. " اخلاق ایک دکان ہے اور زبان اس کا تالا.. تالا کھلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دکان سونے کی ہے یا کوئلے کی

اختلاف

ایک محفل میں دوران تقریب کچھ باتیں ہوئیں
ایک صاحب کہنے لگے، آپ نے اتنی باتیں کرلیں ذرا یہ تو بتایئے کہ نماز میں دو سجدے کیوں ہیں؟
میں نے کہا : مجھے نہیں معلوم۔
کہنے لگے: یہ نہیں معلوم تو پھر آپ کو معلوم ہی کیا ہے؟ اتنی دیر سے آپ کی باتیں سن کر محسوس ہورہا تھا کہ آپ علمی آدمی ہیں لیکن آپ تو صفر نکلے۔
میں نے کہا: جناب! میں صفر نکلا نہیں، میں صفر ہوں! میں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ مجھے بہت کچھ آتا ہے۔
کہنے لگے: اب سنیئے کہ نماز میں دو سجدے کیوں ہیں! ایک سجدہ اسلیئے کہ جب اللہ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ حضرت آدم کو سجدہ کریں تو تمام فرشتے سجدے میں چلے گئے تھے۔ جب فرشتے سجدے سے اٹھے اور دیکھا کہ سجدہ نہ کرنے پر شیطان کو تا قیامت وعید ہوئی تو انہوں نے ایک اور سجدہ شکرانہ ادا کیا کہ ہم حکم عدولی والوں میں نہ تھے۔
میں نے کہا: بہت شکریہ جناب! آپ نے میری معلومات میں اضافہ کیا، میں اس کی تحقیق میں نہیں جاؤنگا کہ آیا یہ بات حسب واقعہ ہے بھی یا نہیں، لیکن ایک سوال میری طرف سے بھی۔ اگر کسی شخص سے نماز میں ایک سجدہ چھوٹ جائے تو کیا اس کی نماز ہوجائے گی؟
کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم۔
میں نے پوچھا: جناب! کیا ہمیں پہلے وہ معلومات حاصل نہ کرنی چاہیئیں جن سے زندگی میں اکثر و بیشتر پالا پڑتا ہو یا پڑنے کی امید ہو۔؟
اس پر وہ بحث کرنے لگے۔
بہرحال ان صاحب نے تو وہ بات نہ مانی لیکن میں یہ سمجھ چکا تھا کہ لوگوں کے دماغ میں "علمیت" کا معیار کیا ہے؟

یقین کیجئے میں نے مسجدوں کی دیواروں ہر قران و حدیث کی بجائے کفر و گستاخی کے فتوے آویزاں دیکھے۔
میں نے کارپینٹر اور مستری کے درمیان "علم غیب" کے مسئلے پر بحث ہوتے دیکھی ہے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو مسلکی ویڈیوز شیئر کرتے دیکھا ہے جن کو غسل کے فرائض تک نہیں معلوم۔
حدیث میں آتا ہے:
"اختلاف العلماء رحمۃ"
علماء کا اختلاف رحمت ہے۔
مجھے لگتا ہے یہ حدیث مجھے اپنے اندر چھپے ایک اور معانی بتا رہی ہے اور وہ ہے:
"اختلاف الجہلاء زحمۃ"
جاہلوں کا اختلاف زحمت ہے۔
کیونکہ علم والے جب اختلاف کرتے ہیں تو غور و فکر کے دروازے کھلتے ہیں اور دلائل کے انبار لگتے ہیں
جبکہ جاہل جب اختلاف کرتے ہیں تو بحث و تکرار کے در وا ہوتے ہیں اور گالیوں کے ڈھیر لگتے ہیں۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

زندگی میں خوشیاں

ایک آدمی کی شادی اس لڑکی سے ہوئی جسے وہ پسند کرتا تھا- یہ ایک بہت بڑا فنکشن تھا- اس کے تمام دوست احباب اس کی خوشی میں شرکت کرنے آئے تھے- یہ دن ان سب کے لئے بھی ایک یادگار دن تھا- وہ لڑکی لال جوڑے میں ملبوس بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی- لڑکا بھی اپنی کالی شیروانی میں بہت دلکش لگ رہا تھا- وہ دونوں ساتھ میں بہت اچھے لگ رہے تھے- ہر کوئی کہہ سکتا تھا کہ ان کا پیار ایک دوسرے کے لئے بہت سچا تھا-
کچھ مہینے بعد وہ لڑکی اپنے شوہر کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگی کہ میں نے ایک میگزین میں پڑھا ہے کہ کس طرح اپنی شادی کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے- اسکے لئے ہمیں یہ کرنا ہوگا کہ ہم دونوں اپنی اپنی ایک لسٹ تیار کریں گے ،جس میں ہم ایک دوسرے کی وہ تمام باتیں لکھیں گے جو ہمیں ایک دوسرے میں بری لگتی ہیں- اور پھر ہم اس پر بات کریں گے کہ کس طرح ہم اسے حل کرسکتے ہیں اور اپنی زندگی ایک ساتھ خوشی خوشی گزار سکتے ہیں- اسکا شوہر راضی ہوگیا-
اس لڑکی نے کہا کہ اب ہم دونوں الگ الگ کمروں میں جائیں گے اور ان باتوں کے بارے میں سوچیں گے جو ہمیں خفا کرتی ہیں- انھوں نے اس بارے میں پورا دن سوچا اور وہ تمام باتیں جو انھیں ناراض کرتی تھیں لکھتے گئے-
اگلے دن صبح ناشتے کی میز پر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی اپنی لسٹ پڑھیں گے- اسکی بیوی نے کہا کہ پہلے میں شروع کروں گی- اس نے اپنی لسٹ نکالی اس میں بہت ساری چیزیں تھیں- اس نے تین صفحات پر وہ تمام عادتیں لکھ دی تھیں جو اسے اپنے شوہر کی بری لگتی تھیں-
جیسے ہی اس نے چھوٹی چھوٹی شکایتوں کی وہ لسٹ پڑھنا شروع کی اس نے دیکھا کہ اس کے شوہر کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے- اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے ؟ تو اس پر اس کے شوہر نے جواب دیا کہ کچھ نہیں، اور اس سے کہا کہ وہ اپنی لسٹ پڑھتی رہے- وہ لڑکی پڑھتی گئی جب تک کہ اس نے وہ تینوں صفحات اپنے شوہر کو نہ سنا دئیے-
اس نے اپنی لسٹ میز پر رکھی اور اپنے ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئی-اس کے بعد اس نے خوش ہو کر اپنے شوہر سے کہا کہ وہ اپنی لسٹ پڑھے تاکہ پھر وہ لوگ ان دونوں لسٹوں میں موجود باتوں پر غور کریں اور سوچیں کہ ان مسئلوں کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟
اس کے شوہر نے بہت نرمی سے کہا کہ میری لسٹ میں کچھ بھی نہیں لکھا ہے- میں یہ سمجھتا ہوں کہ تم جیسی ہو بہت اچھی ہو اور میرے لئے بالکل مکمل ہو- میں نہیں چاہتا کہ تم میرے لئے کچھ بھی بدلو- تم بہت خوبصورت اور خوب سیرت ہو- میں کبھی تمہیں بدلنا نہیں چاہوں گا اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کروں گا-
وہ لڑکی اپنے شوہر کی پر خلوص محبت، اس کے پیار کی گہرائی اور اپنے لئے اس کی سوچ دیکھ کر بہت متاثر ہوئی- اس کی آنکھیں جھک گئیں اور وہ رو پڑی-
زندگی میں ایسے بہت سے مواقع آتے ہیں جب ہم پریشان اور خفا ہو جاتے ہیں- ہمیں ان کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اس دنیا اور اپنے رشتوں کی خوبصورتی کو محسوس کرنا چاہئے-
ہم خوش رہ سکتے ہیں اگر ہم اچھی چیزوں کی تعریف کریں اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو بھلا دیں- اس دنیا میں کوئی بھی مکمل نہیں ہے ،لیکن ہم ایک دوسرے کو مکمل دیکھ سکتے ہیں اگر ہم ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظرانداز کرنا سیکھ جائیں-
ایک اچھے رشتے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ایک دوسرے کو سمجھیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں- اسطرح آپ اپنی زندگی میں خوشیاں بھر سکتے ہیں

اداس موسم

اداس موسم میں زرد پتے
منتظر ہیں بہار تیرے
نجانے کتنی رتوں سے پیاسے
یہ دشت تم کو بلا رہے ہیں
کبھی تو لوٹو ، کبھی تو پلٹو
کہ زندگی میں ويرانياں ہیں
بنا تمھارے
یہ موسموں کی ادائیں دیکھو
کبھی ہنسائیں ، کبھی رلائیں
تم ہی کہو اب
کیا کریں هم
یاد رکھیں یا بھول جائیں

بس اک تماشہ یہ زیست ٹھہری

وجود اپنا، نہ روح اپنی
بس اک تماشہ یہ زیست ٹھہری
نہ دل لگی میں سکون پایا
نہ عاشقی میں قرار پایا
نہ وصال لمحے یہ راس آئے
نہ ہجر ہی ہم گُزار پائے
عجیب چاہت کے مرحلے ہیں
نہ جیت پائے، نہ ہار پائے
نہ تیری یادوں کی دُھند اُتری
نہ دل کے دامن کو جھاڑ پائے
نہ آنکھیں خوابوں کو ڈھونڈ پائیں
نہ خواب آنکھوں کو ڈھونڈ پائے
عجب تماشہ یہ زیست ٹھہری
وجود اپنا، نہ روح اپنی

محبت مہربان ہو گی

محبت مہربان ہو گی
پریشان تم نہیں ہونا
کبھی چھپ کر نہیں رونا
جدائی زہر ہوتی ہے
مجھ معلوم ہے لیکن
فراق و ہجر کا موسم
یقینا بیت جائے گا
یقینا وصل کے لمحے
دوبارہ لوٹ آئیں گے
وہی شامیں
وہی راتیں
وہی قصے
وہی باتیں
وہی پھر داستاں ہوگی
محبت مہربان ہوگی

ﺁﺝ ﺿﺒﻂ ﺭﻭﯾﺎ ﮨﮯ

ﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮔﮭﺮﻭﻧﺪﮦ
ﺗﮭﺎ
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﭨﮭﮑﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﺎ
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﯿﺎﻟﯽ
ﻣﯿﮟ
ﺍﮎ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﺿِﺪ ﻟﮯ
ﮐﺮ
ﺗﻢ ﻧﮯ ﺁﺝ ﮐﮭﻮﯾﺎ ﮨﮯ
ﺁﺝ ﺿﺒﻂ ﺭﻭﯾﺎ ﮨﮯ

مجھے تم سے محبت ہے

میری جان
ٹھیک کہتے ھو
ھماری اس محبت کا
بھلا کیا فائدہ ھو گا
ھمارے درمیاں جو دوریاں ھیں
کم نہیں ھونگی
کبھی بارش کے موسم میں
ھمیشہ ساتھ رھنے کی
جو خواھش دل میں جاگی تھی
جو سپنے ھم نے دیکھے تھے
وہ سپنے ٹوٹ جائیں گے
میری جان
ٹھیک کہتے ھو
مقدر کے لکھے کو ھی اگر
تسلیم کرنا ھے
تو پھر ایسی محبت کا
بھلا کیا فائدہ ھو گا
مگر اس کو
اگر چاہو تو میری بےبسی کہہ لو
مجھے تم سے محبت ہے

محبت حرفِ اول ہے

محبت حرفِ اول ہے
محبت حرفِ آخر ہے
یہ ہے اک ایسا جذبہ جو
ظہور اپنے میں ماہر ہے
زمانے میں اداسی بھی
محبت بانٹ سکتی ہے
کسی کے دل سے نفرت کو
محبت چھانٹ سکتی ہے
محبت باوفا بھی ہے
محبت دل ربا بھی ہے
محبت کرنے والوں کو
محبت سے گلہ بھی ہے
محبت میں جو ہوتے ہیں
گلے وہ سب محبت ہیں
لگن چاہت وفاداری
یہ سارے ڈھب محبت ہیں
محبت آن جیسی ہے
محبت مان جیسی ہے
محبت پھول جیسی ہے
محبت جان جیسی ہے
محبت جان لیتی ہے
محبت جان دیتی ہے
محبت سرفروشی کو
ہمیشہ مان لیتی ہے
محبت اک تبسّم ہے
جو پھولوں میں بھی کھلتا ہے
کبھی تتلی کے پنکھوں میں
کبھی ممتا میں ملتا ہے
محبت سانس لیتی ہے
محبت دیکھ سکتی ہے
محبت ساتھ چلتی ہے
محبت رہ بدلتی ہے
کسی کی شادمانی کو
محبت سوچ سکتی ہے
یہ ساری زندگانی کے
غموں کو نوچ سکتی ہے
محبت اک نگینہ ہے
یہ جینے کا قرینہ ہے
نہیں جو ڈوبنے پاتا
محبت وہ سفینہ ہے
جہاں کے سب مذاہب میں
محبت کا تقدّس ہے
یہی انساں کے جذبوں میں
عطا سب سے مقدس ہے
محبت کا یہ جذبہ اب
بڑا پامال ہوتا ہے
یہ جس کے دل میں بس جائے
بہت بے حال ہوتا ہے
محبت کل بھی ہوتی تھی
محبت اب بھی ہوتی ہے
مگر اپنے مقدر پر 
محبت آج روتی ہے

Friday, December 26, 2014

بہت بے حس سی لڑکی ھے

بہت بے حس سی لڑکی ھے
سدا خاموش رھتی ھے
بہت کم مسکراتی ھے
نمی آنکھوں میں رھتی ھے
بہت سوچوں میں رھتی ھے
بسی آنکھوں میں ویرانی
چھپی چہر ے پہ حیرانی
اگر کوئی جو کچھ پوچھے
جوابی بات کہ کر پھر
یونہی خامو ش رھتی ھے
بڑی بے حس سی لڑکی ھے
خود ھی میں گم ھی رھتی ھے
یہ کچھ مغرور لڑکی ھے

یہ باتیں سنکے اس لڑکی کو
پھر کچھ یاد آتا ھے
کبھی یہ لوگ کہتے تھے
بڑی چنچل سی لڑکی ھے
ھمیشہ مسکراتی ھے
اور اکثر گنگناتی ھے
چمکتا چاند سا چہرہ
کھنکتا شو خ سالہجہ
دیے جلتے ھیں آنکھوں میں
بڑی شوخی ھے باتوں میں
فضائیں دیکھ کر اسکو
خوشی سے جھوم جاتی ھیں
چمکتی رات اسکے نین میں
سپنے جگاتی ھے
تمازت دھوپ کی چہر ے پہ اسکے
گل کھلاتی ھے
کبھی بارش کے موسم میں
سہانے کھیل کشتی کے
کبھی گڑیوں کی شادی ھو
کبھی گیتوں کی بازی ھو
یہ ھر دم پیش رھتی ھے
بڑی الہّڑ سی لڑکی ھے
یہ کتنی شو خ لڑکی ھے

مگر اب لوگ کہتے ھیں
عجب بے حس سی لڑکی ھے
بہت کم مسکراتی ھے
سدا خاموش رھتی ھے
انہیں معلوم کیسے ھو
وفا کے قید خانے میں
فرائض کے نبھانے میں
جو لڑکی دار چڑھتی ھے
جسے سپنوں کے بننے کی
سزائیں وقت نے دی ھو ں
جو رسموں اور رواجوں کے
الاؤ میں سلگتی ھو
لبوں کی نوک پر جسکے
گلے بے جان ھوتے ھوں
جسم کی قید میں
جب روح اکثر پھڑپھڑاتی ھو
تو اک کمزور سی لڑکی
یونہی بے موت مرتی ھے
تو پھر یوں لوگ کہتے ھیں
بہت سنجیدگی اوڑھے
عجب بے حس سی لڑکی ھے
بہت کم مسکراتی ھے
سدا خاموش رھتی ھے