معلوم نہیں یہ انسانی جبلت ہے یا فرد واحد کا رویہ کے ایک طرف ہم آزادی رائے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف اگر کوئی اختلافی بات کر دے تو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں. جب بھی دوسرا بندہ آپ کی سوچ یا رائے سے ہٹ کر بات کرتا ہے تو ہمارا رویہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کو "دلیل" سے خالی کر لیتے ہیں اور "غصّے" سے بھر لیتے ہیں اور پھر آخر کار آخری حربے کے طور پر اسے راستے سے ہی ہٹا دیتے ہیں، یعنی نا رہے گا بندہ نا رہے گا اختلاف. جس دن ہم نے اپنے دماغ کو صرف دلیل سے بات کرنے کا عادی بنا لیا تو دنیا میں کافی ساری قتل و غارت ختم ہو جایے گی.
No comments:
Post a Comment