Thursday, December 25, 2014

اُسے میں نے ہی لکھا تھا

اُسے میں نے ہی لکھا تھا
کہ لہجے برف ہوجائیں
تو پھر پگھلا نہیں کرتے
پرندے ڈر کر اڑ جائیں
...تو پھر لوٹا نہیں کرتے
یقیں اک بار اٹھ جائے
کبھی واپس نہیں آتا
ہواؤں کا کوئی طوفاں
بارش نہیں لاتا
اسے میں نے ہی لکھا تھا
جو شیشہ ٹوٹ جائے تو
کبھی پھر جڑ نہیں پاتا
جو راستے سے بھٹک جائیں
وہ واپس مڑ نہیں پاتا
اُسے کہنا وہ بے معنی ادھورا خط
اُسے میں نے ہی لکھا تھا
اُسے کہنا کے دیوانے مکمل خط نہیں لکھتے

No comments:

Post a Comment