وہی آہٹیں درو بام پر
وہی رت جگے کے نصاب ہیں
وہی ادھ بجھی میری نیند ہے
وہی ادھ جلے میرے خواب ہیں
کبھی چاھا خود کو سمیٹنا
تو بکھر کے اور بھی رھ گیا
ہیں جو کرچی کرچی پڑے ہوے
میرے سامنے میرے راز ہیں
یہ نہ پوچھ کیسے بسر کیے
شب و روز کتنے پہر جیے
کسے رات دن کی تمیز تھی
کسے یاد اتنے حساب ہیں
No comments:
Post a Comment