Thursday, December 25, 2014

وہی آہٹیں درو بام پر

وہی آہٹیں درو بام پر
وہی رت جگے کے نصاب ہیں
وہی ادھ بجھی میری نیند ہے
وہی ادھ جلے میرے خواب ہیں
کبھی چاھا خود کو سمیٹنا
تو بکھر کے اور بھی رھ گیا
ہیں جو کرچی کرچی پڑے ہوے
میرے سامنے میرے راز ہیں
یہ نہ پوچھ کیسے بسر کیے
شب و روز کتنے پہر جیے
کسے رات دن کی تمیز تھی
کسے یاد اتنے حساب ہیں

No comments:

Post a Comment