Thursday, December 25, 2014

رنجشوں کی باتوں کو بھولنا بھی پڑتا ہے

درد پھیل جائے تو
ایک وقت آتا ہے
دل دھڑکتا رہتا ہے
آرزو گزیدوں کے حوصلے نہیں چلتے
دشتِ بے یقینی میں آسرے نہیں چلتے
راہ روؤں کی آنکھوں میں
منزلیں نہ جب تک ہوں، قافلے نہیں چلتے
ایک ذرا توجہ سے دیکھئے تو کھلتا ہے
لوگ ان پہ چلتے ہیں راستے نہیں‌چلتے
سوچنے سمجھنے سے، ساتھ ساتھ چلنے سے
دوریاں سمٹی ہیں‌فاصلے نہیں چلتے
خواب خواب آنکھوں میں، رتجگے نہیں چلتے
درگزر کے حلقے میں مسئلے نہیں‌چلتے
دو دلوں کی قربت میں تیسرا نہیں‌ہوتا
واسطے نہیں چلتے
بخت ساتھ چلتا ہے تابع آزماؤں کے
وقت رام کرنے میں تجزیوں کے داؤ کیا
تجربے نہیں چلتے
عشق کے علاقے میں حکمِ یار چلتا ہے
ضابطے نہیں چلتے
حسن کی عدالت میں عاجزی تو چلتی ہے
مرتبے نہیں چلتے
دوستی کے رشتوں کی پرورش ضروری ہے
سلسلے تعلق کے خود سے بن تو جاتے ہیں
لیکن ان شگوفوں کو ٹوٹنے بکھرنے سے
روکنا بھی پڑتا ہے
چاہتوں کی مٹی کو آرزو کے پودے کو
سینچنا بھی پڑتا ہے
رنجشوں کی باتوں کو بھولنا بھی پڑتا ہے

No comments:

Post a Comment