ہر شخص کو معلوم ہے عیسائی، حضرت عیسیٰ ں کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ ہر سال ۲۵ دسمبر کو یہ اپنے اعتقاد کے مطابق (نعوذ باللہ) خدا کے ہاں بیٹا پیدا ہونے پر خوشیاں مناتے ہیں۔ کرسمس خدا پر ایسا ہی ایک کھلا بہتان ہے یعنی خدا کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کا تہوار؛ ایک ایسی بات جس پر آسمان کانپ اٹھتا ہے اور زمین لرز جاتی ہے۔قرآن شریف میں اِس پر وعید آتی ہے:
’’اور وہ بولے: رحمن بیٹا رکھتا ہے۔ یقیناًتم نے ایک نہایت گھناؤنی بات بول ڈالی۔ قریب ہے کہ آسمان اِس سے پھٹ پڑیں زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس لیے کہ انہوں نے رحمن کے لیے بیٹا تجویز کر ڈالا۔ رحمن کے تو لائق ہی نہیں کہ اولاد رکھے‘‘۔ (مریم: ۸۸۔۹۲)
پھر بھی اسلام وہ دین ہے جس میں کوئی زبردستی نہیں۔ دنیا کی زندگی زندگی اُنہیں اپنے اِس کفر پر رہنے کی آزادی ہے اور سزا کا ایک دن مقرر ہے۔ ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم اُنہیں خدا پر ایسا بہتان گھڑنے سے خبردار کریں۔ اپنے نبی ا کا یہ مشن اب ہمیں انجام دینا ہے کہ: عیسائی اقوام کو اُن کے اِس شرک پر خدا کی پکڑ سے ڈرائیں۔ البتہ ایسی کوئی رواداری ہمارے دین میں نہیں کہ جس وقت وہ اپنے اس بہتان پر خوشیاں منارہے ہوں کہ آج کے دن (نعوذ باللہ) خدا کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا تو ہم اُن کو مبارک سلامت کہہ کر آئیں اور اُن کی خوشیوں میں شریک ہوں۔ آدمی کی غیرتِ دینی سلامت ہو تو یہ بات خودبخود سمجھ آتی ہے۔ فقہاء نے اس چیز کے حرام ہونے پر شریعت سے باقاعدہ دلائل ذکر کئے ہیں:
۱۔ قرآن مجید میں رحمن کے بندوں کی صفت بیان ہوئی:
وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاماً (الفرقان: ۷۲)
اور وہ لوگ جو باطل پر حاضر نہیں ہوتے اور کسی بیہودہ چیز پر ان کا گزر ہو تو متانت کے ساتھ گزرتے ہیں۔
آیت میں جس باطل کا ذکر ہوا: ابن کثیر ودیگر کتب تفسیر نے تابعی مفسرین کی ایک بڑی تعداد کا قول ذکر کیا ہے کہ: یہ اہل جاہلیت کے تہوار ہیں۔ اِس تفسیر کی رو سے ’’عباد الرحمن‘‘ کا شیوہ یہ ٹھہرا کہ وہ ایسی جگہوں کے پاس نہ پھٹکیں جہاں اہل جاہلیت اپنے شرکیہ تہوار منانے میں مگن ہوں۔
۲۔ ابو داود، مسند احمد اور ابن ماجہ میں حدیث آتی ہے:
عن ثابت بن ضحاک ص: (نَذَرَ رَجُلٌ عَلیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ أنْ یَنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ) فَقَالَ النَّبِیُّﷺ: (ہَلْ کَانَ فِیْہَا وَثَنٌ مِنْ أوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟) قَالُوْا: (لا) قَالَ: (فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟) قَالُوْا: (لا) فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: (أوْفِ بِنَذْرِکَ، فَإنَّہ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃٍ أوْ فِیْمَا لا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ
دورِ رسالت مآب ا میں ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر اونٹ قربان کرے گا۔ تب نبی ا نے فرمایا: کیا وہاں پر جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ آپ انے فرمایا: تو کیاوہاں ان کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ تب آپ انے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو کیونکہ کیونکہ ایسی نذر کا پورا کرنا درست نہیں جو معصیت ہو یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو
اِس حدیث کے ضمن میں علمائے کرام کہتے ہیں: وہ صحابیؓ تو قطعاً کسی بت پر چڑھاوا دینے یا کوئی جاہلی تہوار منانے نہیں جارہا تھا لیکن رسول اللہ انے اِس بات کی تسلی فرمانا چاہی کہ ماضی میں بھی وہاں نہ تو کوئی بت پوجا جاتا تھا اور نہ کوئی جاہلی تہوار منایا جاتا تھا۔ اس سے واضح ہوا کہ مسلمان کا اِن اشیاء سے دور رہنا شریعت کو کس شدت کے ساتھ مطلوب ہے۔
Thursday, December 25, 2014
کرسمس کی حیثیت
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment