مجھے ضرورت ہی کیا تھی لکھوں
بہار رت میں خزاں کے قصے
وفا کے بدلے جفا کی باتیں
کیوں دھوپ دیکھوں سراب لکھوں
کیوں اپنی ہر شب عذاب لکھوں
میرا قلم تو سدا سے لکھے
رفاقتوں کے صداقتوں کے
وہ باب سارے
جو چشم_ بینا پہ بار گزرے
میرا قلم حق کا داعی ٹھہرا
نہ بک سکا ہے نہ جھک سکا ہے
میں جانتا ہوں، یہ مانتا ہوں
میرے وطن کی جبیں پہ چمکے
لہو کے قطرے
یہ وہ لہو ہے، ہماری غیرت کو جو پکارے
وہ گل جو کھلنے سے پیشتر ہی
گۓ ہیں روندے
بتا دسمبر! تمہیں میں کیسے وداع کروں گا
وہ اہل دل، ہمنوا وہ میرے
جو تم پہ چاہت کے باب لکھیں
میں ان سا لکھوں تو کیسے لکھوں
میں سچ کے بدلے کیوں جھوٹ لکھوں
میں اب کے کچھ بھی نہ کہہ سکوں گا
میں اپنی نظروں میں گر گیا ہوں
میں سچ بتاؤں تو مر گیا ہوں
Tuesday, December 30, 2014
مجھے ضرورت ہی کیا تھی لکھوں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment