Tuesday, December 30, 2014

مجھے ضرورت ہی کیا تھی لکھوں

مجھے ضرورت ہی کیا تھی لکھوں
بہار رت میں خزاں کے قصے
وفا کے بدلے جفا کی باتیں
کیوں دھوپ دیکھوں سراب لکھوں
کیوں اپنی ہر شب عذاب لکھوں
میرا قلم تو سدا سے لکھے
رفاقتوں کے صداقتوں کے
وہ باب سارے
جو چشم_ بینا پہ بار گزرے
میرا قلم حق کا داعی ٹھہرا
نہ بک سکا ہے نہ جھک سکا ہے
میں جانتا ہوں، یہ مانتا ہوں
میرے وطن کی جبیں پہ چمکے
لہو کے قطرے
یہ وہ لہو ہے، ہماری غیرت کو جو پکارے
وہ گل جو کھلنے سے پیشتر ہی
گۓ ہیں روندے
بتا دسمبر! تمہیں میں کیسے وداع کروں گا
وہ اہل دل، ہمنوا وہ میرے
جو تم پہ چاہت کے باب لکھیں
میں ان سا لکھوں تو کیسے لکھوں
میں سچ کے بدلے کیوں جھوٹ لکھوں
میں اب کے کچھ بھی نہ کہہ سکوں گا
میں اپنی نظروں میں گر گیا ہوں
میں سچ بتاؤں تو مر گیا ہوں

No comments:

Post a Comment