اداس آنکھیں ہیں مرکوز ہم پر
خاموش سہمی یہ پوچھتی ہیں
ہمارے لہو کی ہے کوئی قیمت ؟
ہوتی ہے یوں پھولوں سے قربت ؟
وحشیوں کی یہ کیسی نفرت ؟
ہے کِس کا قصور کِس کی غفلت ؟
سنو! ... یہ ایک ایک ساعت
جو ہولے ہولے، چپکے چپکے
رواں ہے خونی راہوں کی جانب
اور سسکتا ہر ایک لمحہ
تڑپ رہا ہے گزر رہا ہے
اور گزرنے والا ہر ایک لمحہ
حساب مانگے گا راہبروں سے
شہادتوں کا عداوتوں کا
اپنوں سے بچھڑی وہ چاہتوں کا
حساب دو گے ؟ تو کیسے دو گے؟
No comments:
Post a Comment