Wednesday, December 31, 2014

کہانی مر نہیں سکتی  کہانی پھر جنم لے گی

اک دائرہ ہے
دائرے میں آگ ہے 
اور آگ کے روشن تپش آمیز منظر سے کوئی کردار ابھرا ہے 
عجب ماحول ہے 
اک بے نیازی ہے،جنوں پرور ادا ہے
رقص جاری ہے
تھرکتے پاؤں انگاروں پہ پڑتے ہیں
تو انگاروں کی نبضیں ڈوب جاتی ہیں
انوکھی بے خودی ہے
کیف و مستی ہے
مسلسل رقص جاری ہے 
مگرکچھ فاصلے پر 
منتظر بیٹھی ہوئی یخ بستگی 
یہ سوچتی ہے
کب ادھورے خواب
ان آنکھوں کی پلکوں سے گریں گے
خاک کی پوروں میں اتریں گے 
الاؤ کب بجھے گا 
کب تماشہ ختم ہوگا
کب نئی رت پھر نئے خوابوں کو 
آنکھوں میں سجائے گی
نئے رنگوں سے خوشبو سے 
نیا کردار ابھرے گا
نئی صورت گری ہو گی
کہانی مر نہیں سکتی 
کہانی پھر جنم لے گی

No comments:

Post a Comment