شیخ سعدی نے کہا تھا ’’ میں خدا سے ڈرتا ہوں، اور خدا کے بعد اس شخص سے ڈرتا ہوں جو خدا سے نہیں ڈرتا‘‘اسی بات کو شیکسپیئر نے اپنے انداز میں اس طرح کہا ہے۔‘‘ انسان ہی ایک ایسا جانور ہے جس سے میں بزدل کی طرح ڈرتا ہوں۔‘‘اس دنیا میں ہر چیز ، ہر شے قابل پیشں گوئی کردار رکھتی ہے۔ آگ کے بارے میں آپ پیشگی طور پر یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگر آپ نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا تو وہ آپ کے ہاتھ کو جلا ڈالے گی اگر آپ اپنے ہاتھ کو اس سے دور رکھیں تو وہ ایسا نہیں کرے گی کہ وہ کود کر آپ کے ہاتھ پر آ گرے۔ یہی معاملہ تمام چیزوں کا ہے حتیٰ کہ خونخواراور موذی جانوروں کے بارے میں بھی ہم کو پیشگی طور پر معلوم ہے کہ وہ یکطرفہ طور پرکسی کے اوپر حملہ نہیں کرتے۔ امن کا حملہ ہمیشہ دفاعی ہوتا ہے نہ کہ جارحانہ،اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ہرچیز ایک لگے بندھے قاعدے کے تحت کام کر رہی ہے۔ اور اس قاعدہ کو دیکھتے ہوئے آپ اس کے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔مگر انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جس کے عمل کا کوئی اصول ،کوئی قاعدہ ،کوئی روش اورکوئی طریقہ لازمی نہیں وہ مکمل طور پر آزاد ہے اور جس وقت جو چاہے کر سکتا ہے کہ اس نے خود پرکوئی روک ٹوک عائد نہیں کر رکھی ہے۔ اس دنیا میں انسان ہی ایک ایسا وجود ہے جو یکطرفہ طور پر دوسرے کے خلاف کارروائی کرتا ہے جو کسی حقیقی سبب کے بغیر دوسرے کے اوپر حملہ کرتا ہے انسان کے حرص اور انتقام کی کوئی حدنہیں۔ آپ خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہوں اور محض ذاتی قابلیت اور محنت کی بنیاد پر ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہوں تب بھی آپ محفوظ ہیں کہ دوسروں کے اندر حسد کا جذبہ پیدا ہونا ناگزیر ہے اور حسد کے جذبے نے ذراسا بھی سر اٹھایا تو یہ آپ کو گرانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ انسان لامحدود طور پر اپنی خواہش پور ی کرنا چاہتا ہے ۔چاہے دوسروں کی بربادی میں اس کو رتی بھر ہی فائدہ حاصل نہ ہو۔ یہ سب کچھ کبھی حسد کے نام پر کبھی انا کی تسکین کے حوالے سے اور کبھی دوسروں کو گرانے میں محض لطف اٹھانے کیلئے کیا جاتا ہے۔
کوئی بدترین موذی جانور بھی اس کو نہیں جانتا کہ وہ کسی کو ذلیل وخوار کرنے کا منصوبہ بنائے۔ وہ کسی کو نیچا دکھا کر اپنے غرور کیلئے تسکین کا سامان فراہم کرے۔کسی کو خوامخواہ مصیبتوں کے جال میں پھنسا کر اس کی پریشانی کا تماشہ دیکھے۔ یہ صرف حضرت انسان ہے جو ایسا کرتا ہے۔ انسان زمین کے اوپر ایک تضاد ہے وہ حقیقتوں کی دنیا میں حقیقتوں کو نظر انداز کرکے رہناچاہتاہے۔ انسان کو ایک نہایت حسین اور مکمل دنیا دی گئی ہے مگر وہ اس طرح رہتا ہے جیسےوہ اپنی دنیا کی تردید کر رہا ہو۔ انسان کھلے ہوئے آسمان کے نیچے بند زمین کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔ اونچے پہاڑوں کی آغوش اور پڑوس میں وہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔سرسبزو شاداب درختوں اورپیڑوں کے ماحول میں وہ سرکنڈا بنا ہوا نظر آتا ہے۔دریائوں،ندی، نہروں اور چشموں کی روانی کے درمیان وہ جمود و تعطل کی تصویر بنا ہوا ہے۔
جہالت کے حوالے پڑھتے پڑھتے
کتابوں سے میرا جی بھر گیا ہے !
Thursday, December 25, 2014
میں خدا سے ڈرتا ہوں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment